affiliate marketing Famous Urdu Poetry: November 2015

Sunday 1 November 2015

ہجر کی شب

غزلِ
مُحسن نقوی

کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تِری آنکھیں، تِرے لب یاد آئے

ایک تُو تھا جسے غُربت میں پُکارا دِل نے
ورنہ، بِچھڑے ہُوئے احباب تو سب یاد آئے

ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پَل بھر سوچا
دُکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبَب یاد آئے

پُھول کِھلنے کا جو موسم مِرے دل میں اُترا
تیرے بخشے ہُوئے کچھ زخم عجَب، یاد آئے

اب تو آنکھوں میں فقط دُھول ہےکچھ یادوں کی
ہم اُسے یاد بھی آئے ہیں تو، کب یاد آئے

بُھول جانے میں، وہ ظالِم ہے بھَلا کا ماہر !
یاد آنے پہ بھی آئے، تو غضب یاد آئے

یہ خُنک رُت، یہ نئے سال کا پہلا لمحہ !
دِل کی خواہش ہے کہ، مُحسن، کوئی اب یاد آئے

دعا

سنو جاناں!
مجھے سب یاد ہے اب بھی
مجھے تم نے کہا تھا ناں!!!
"میری خاطر دعا کرنا,
مجھے دل میں, طبیعت میں,
درشتی اور سختی سی,
ذرا محسوس ہوتی ہے,
دعا کرنا میرے رب سے,
کہ وہ مجھ کو طبیعت میں,
اور اس دل میں,
ذرا نرمی عطا کر دے,
میرا دل موم سا کر دے,
مجھے دل, درد مند دے دے....!"
گواہ ساری خدائی ہے,
کہ اس لمحے سے لے کر آج تک
میرے جب ہاتھ اٹھے ہیں
کبھی جب بھی دعا مانگی,
میں سب کچھ بھول کر,
بس ایک جملہ دہراتی ہوں,
کہ" میرا اللہ!
تمہارے دل سے ساری سختیاں لے لے,
تمہیں دل موم سا دے دے,
تمہارا دل نرم کر دے..."
(آمین)
مگر دیکھو,
نہ جانے کن گناہوں کی سزا مجھ کو ملی ہے یوں..
کہ پچھلی ہر دعا کے ساتھ
میری یہ دعا بھی بارگاہ رب نے رد کردی,
وہی سختی ,
تمہارے دل میں کس شدت سے در آئی,
وہی سختی,
میری ہستی پہ تم نے خود آزمائی..
میری ہر آہ, سسکی اور صدا,
خود تم نے ٹھکرائی,....!
دعا کا یہ ثمر پا کر,مجھے اب خوف آتا ہے..
کہ میں اب زندگی بھر, اور کوئی بھی دعا,
شاید نہ کر پاؤں

اے اجنبی

سنو! 
اے اجنبی سے مہرباں 
 لیکن بہت اپنے
بہت دل کے سخی ہو تم
تمہاری آنکھ کے ہر رنگ میں
مرہم نما کچھ خواب بستے دیکھتی ہوں میں
تمہیں چھو کر نہیں دیکھا
مگر۔۔۔۔۔ میں اپنی سانسوں میں
عجب سی خوشبوئوں کے لمس پاتی ہوں
کبھی تم اپنے لہجے میں
کسی گزری مسافت کی تھکن جب گھولتے ہو تو۔!
میں اپنی خواہشوں کا ہر قدم بوجھل سا پاتی ہوں
تمہاری آنکھ میں کیسا انوکھا رنگ ہے پیارے؟
میرے خوابوں کے رنگوں سا
یا شائد پھر کوئی تعبیر لگتا ہے
تمہاری بات میں پھولوں سی کومل دلفریبی ہے
انہیں چن کر خیالوں میں کئی گجرے بناتی ہوں
انہیں جب دل میں دہرائوں۔۔۔
مہک تازہ ہی پاتی ہوں
مگر۔۔۔۔پیارے!
حقیقت.. زہر ہے پھر بھی حقیقت ہے
میرے دل کے کسی کونے میں۔۔۔
اِک لڑکی۔۔۔۔۔۔
بہت سہمی سی رہتی ہے
جسے بدلی رتوں کو دیکھنے سے خوف آتا ہے
کہ جسکے ذرد آنچل کے ۔ڈھلکتے ایک پلو میں
بندھی ہیں کرچیاں۔۔۔۔
یادوں کی۔۔۔خوابوں کی۔۔۔عذابوں کی
وہ یہ کہنے سے ڈرتی ہے
سنو !
اے اجنبی اپنے۔۔میرا آنچل نہیں اتنا
نئے خوابوں کی بکھری کرچیاں اس میں سمو پائیں
میری آنکھیں بہت بنجر۔۔
یہ اتنا رو نہ پائیں گی
کہ تازہ زخم دھو پائیں
مجھے تو راس ہے بس ایک ہی موسم
زیاں موسم۔۔۔خزاں موسم
۔یا شائد رائیگاں موسم

آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ



آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ

عمر گزری تجھے دیکھے ہوئے بہلائے ہوئے
یاد ہے؟
ہم تجھے دل مانتے تھے
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدی بچہ
تیرے ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتے تھے
تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر
ایک جیون کہ تمناؤں کی بینائی سے
ھم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے
سوچتے تھے ایک چھوٹا سا نيا گھر
نيا ماحول محبت کی فضا
ھم دونوں
اور کسی بات پر تکیوں سے لڑائی اپنی
پھر لڑائی میں کبھی ہنستے ہوئے رو پڑنا
اور کبھی روتے روتے ہنس پڑنا
اور تھک ہار کے گر پڑنے کا مصوم خوش بخش خیال
یاد ہے؟
ہم تجھے سکھ جانتے تھے
رات ہنس پڑتی تھی بےساخته درشن سے تیرے
دن تیری دوری سے رو پڑتا تھا
یاد ہے؟
ہم تجھے جاں کہتے تھے
تیری خاموشی سے ہم مرجاتے
تیری آواز سے جی اٹھتے تھے
تجھ کو چھو لینے سے اک زندگی
آ جاتی تھی شریانوں میں
تھام لینے سے کوئی شہر سا بس جاتا تھا ويرانوں میں
یاد ہے؟
ہم تجھے ملنے کے لیے وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے
اور ملاقات کے بعد ہم بہت دیر سے گھر آتے
تو کہتے کہ ہمیں کچھ نہ کہو ہم بہت دور سے گھر آئے ہیں
اس قدر دور سے آئے ہیں کہ شاید ہی کوئی آ پائے
یاد ہے؟
ہم تجھے بھگوان سمجھتے تھے مگر کفر سے ڈر جاتے تھے
تیرے چھن جانے کا ڈر ٹھیک سے رکھتا تھا مسلمان ہمیں
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
تیرے بھولے ھوئے رستوں پہ
لیے پھرتا ہے ایمان ہمیں
اور کہتا ہے کہ پہچان ہمیں
یاد ہے۔۔۔!
ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے۔۔۔!!
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
فرحت عباس شاہ

اہل وفا



دن رات کے آنے جانے میں
  دنیا کے عجائب خانے میں
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں،
کبھی منظر صاف نہیں ہوتے
کبھی سورج بات نہیں کرتا
کبھی تارے آنکھ بدلتے ہیں
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے
کبھی رستے آگے چلتے ہیں
کبھی آسیں توڑ نہیں چڑھتیں
کبھی خدشے پورے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں
کبھی خواب ادھورے ہوتے ہیں
یہ تو سب صحیح ہے لیکن
اس آشوب کے منظر نامے میں
دن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کچھ سایہ کرتی آنکھوں کے ، پیماں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاتھوں سے اگرچہ دور سہی، امکاں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاں، ریت کے اس دریا سے ادھر
اک پیڑوں والی بستی کے
عنواں تو دکھائی دیتے ہیں!
منزل سے کوسوں دور سہی
پردرد سہی، رنجور سہی
زخموں سے مسافر چور سہی
پر کس سے کہیں اے جان وفا
کچھ ایسے گھاؤ بھی ہوتے ہیں جنہیں زخمی آپ نہیں دھوتے
بن روئے ہوئے آنسو کی طرح سینے میں چھپا کر رکھتے ہیں
اور ساری عمر نہیں روتے
نیندیں بھی مہیا ہوتی، سپنے بھی دور نہیں ہوتے
کیوں پھر بھی جاگتے رہتے ہیں! کیوں ساری رات نہیں سوتے!
اب کس سے کہیں اے جان وفا
یہ اہل وفا
کس آگ میں جلتے رہتے ہیں، کیوں بجھ کر راکھ نہیں ہوتے

ﮐﺴﯽ ﺷﻤﻊ ﭘﮧ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ____ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺼﺪﺍً ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﺎ

ﮐﺴﯽ ﺷﻤﻊ ﭘﮧ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ____ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺼﺪﺍً ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﺎ ...
ﺍﺳﮯﺗﻮ ﻭﺻﻞ ﮐﮯﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺴﺮﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ،، ﺗُﻮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﺎ ...
ﺗﯿﺮﮮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﯽ ﻓﺼﺎﺣﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﻭﮦ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻨﺎ ...
ﮐﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﻗﻌﻮﮞ ﭘﺮ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻧﺎﻣﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﻨّﺎ ﺑﮭﯽ ...
ﺍﺭﮮ ﺯﺍﮨﺪ،،، ﺩﮐﮭﺎﻭﮮ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺮﺩﮦ ﺿﻤﯿﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺗﻌﺠﺐ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﺍﺗﻨﺎ؟؟؟؟
ﯾﮧ ﺑﮯ ﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺳﻨﻮ ﻋﮩﺪِ ﺷﺒﺎﺏ ﺁﯾﺎ ﮬﮯ،،،،،،،، ﺍﺏ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ....
ﻧﺌﯽ ﮐﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻬﻨﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ....
ﺍُﺳﮯﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺩﻥ ﮈﮬﻠﻨﮯﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﺏ ﮔﮭﺮﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺁﺋﮯ ....
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ،،،، ﻟﻤﺒﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﯽ ﻟﯿﮑﻦ،،، ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮ ﮬﮯ ...
ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﯾﮩﺎﮞ ﺩﻝ ﺑِﮏ ﺭﮨﮯﮨﯿﮟ ﺩﺭﮨﻢ ﻭﺩﯾﻨﺎﺭ ﮐﮯﻋِﻮَﺽ ...
ﻧﻔﻊ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺧﺴﺎﺭﮦ ﯾﮧ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﻣﯿﺮﮮ ﺷﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮧ ﺭﻭﺩﯾﻨﺎ ...
ﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﯾﮧ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ....
ﺗﻢ ﺍﻧﺠﺎﻡِ ﻣﺤﺒﺖ ﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻋﺎﺭﻑ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮔﮯ ....
ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ،، ’ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﻫﮯ

تمہیں میں کِس طرح بھولوں

تمہیں میں کِس طرح بھولوں
بتاؤ کوئی نُسخہ ہے
مجھے تم یہ تو بتلاؤ کہ کیا تم کوئی منظر ہو
کہ جس کو دیکھ کر،میں اگلے پل میں بھول جاؤں گا
یا تم کوئی کہانی ہو
جسے پڑھ کر میں کچھ ہی دیر میں سب بھول جاؤں گا
یا تم کوئی کھلونا ہو
کہ جس کے ٹوٹ جانے پر میں اُس کو پھینک ڈالوں گا
یا تم کوئی تماشا ہو
جسے کچھ دیر رُک کر، دیکھ کر، میں اپنی راہ لوں گا
بتاؤ؟؟ اب کے چُپ کیوں ہو
کوئی نُسخہ تو ہو گا نا؟؟ کوئی تعویز بھی ہو گا
کوئی ترکیب تو ہو گی؟؟ کوئی تجویز ہی دے دو
ارے اب کچھ تو بتلاؤ اگر تم نے کہا ہے کہ "مجھے اب بھول جاؤ تم
مری جاں! بھول جاؤں گا ، مگر کیسے؟؟ یہ بتلاؤ
مرے محبوب....
بس کر دو ...
 ہنسی آتی ہے اب مجھ کو
تمہاری ایسی سوچوں پر،یہ اِن بچگانہ باتوں پر
سنو.....
ایسا نہیں ہوتا، تعلق ٹوٹ جانے پر کوئی بھولا نہیں کرتا
تمہیں جانا ہے ، تو جاؤ
میں رستے میں پڑا ہوں کیا
تمہیں اِک لفظ بولا ہو؟؟
کوئی شکوہ کیا میں نے؟؟
کوئی آنسو بہایا ہو؟؟
 کوئی دکھڑا سُنایا ہو؟؟
تمہیں رُکنے کا بولا ہو؟؟ کوئی تفصیل مانگی ہو؟؟
اگر ایسا نہیں کچھ بھی، تو پھر تم کیوں بضد ہو کہ تمہیں میں بھول ہی جاؤں؟؟
تمہیں جانا ہے نا؟؟؟... جاؤ
تمہاری یاد ہو،کچھ بھی ہو، تم آزاد ہو....جاؤ
تمہیں اِس سے نہیں مطلب....
 غلط فہمی تھی یا اُلفت
یہ میرا دردِ سر ہے، دردِ دِل ہے ، جو بھی ہے ، جاؤ
تمہارا کام تھا، تم نے محبت کی، بہت اچھے
یہ میرا کام ہے، میں یاد رکھوں یا بھُلا ڈالوں...
عجب باتیں ہیں دُنیا کی، عجب رسمیں ہیں اُلفت کی
محبت کر تو لیتے ہیں، نبھانا بھول جاتے ہیں
کسی دِن چھوڑ جائیں گے، بتانا بھول جاتے ہیں
مجھے اب کچھ نہیں سُننا، مجھے کچھ بھی نہ بتلاؤ
مجھے تم مشورے مت دو.....
کہ میں نے کیسے جینا ہے
اگر تم بھولنے کا گُر مجھے بتلا نہیں سکتے ،
تو پھر کچھ بھی نہ بتلاؤ
چلے جاؤ...
چلے جاؤ.....!
کبھی نہ لوٹ کر آنے کو تم.... جاؤ....... چلے جاؤ

مَیں ماٹی کے مول بِکی

مَیں ماٹی کے مول بِکی
بول کے بس دو بول بِکی
سَیّاں کو تب پیار آیا
زہر تھی جب وہ گھول چکی
بک گئی ایک رُوپلی میں
میری اک اَن مول سَکھی
جال میں اُس کے پاؤں پھنسے
چڑیا جب پَر کھول چکی
چال میں کب ہے فرق پڑا
من میں لیکن ڈول چکی
میں نے کہہ دی بِپتا سب
تُو بھی تو اب بول سَکھی !
آ برسات کی رُت آئی
ڈال گلے میں ڈھول سَکھی !
آنکھ کی سِیپ کے موتی کو
ماٹی میں نہ رول سکھی !
کہنے کی ہمّت نہ ہوئی
بات تھی لیکن تول چکی
یہ تو کہانی ٹھیک نہیں
اِس میں ہے کچھ جھول سَکھی !
ساجن سے نہ نظر ملے
کھل گئے سارے پول سَکھی !