affiliate marketing Famous Urdu Poetry: May 2016

Tuesday 31 May 2016

کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو

کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو
کچھ باتیں اَن سُنی رہنے دو

 

سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر ـــ
پھر باقی کیا رہ جائے گا


سب باتیں اُن کی سُن لیں اگر ـــ
پھر باقی کیا رہ جائے گا

 

اِک اوجھل بے کلی رہنے دو
اِک رنگیں اَن بنی دُنیا پر


اِک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو

کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو

 

کچھ باتیں اَن سُنی رہنے دو

 

شاعر: منیرؔ نیــازی

 

تُو


بہت طویل سہی داستانِ دل ، لیکن
بس ایک شخص ھے لُبِّ لباب یعنی تُو

بن تیرے کیسے غم زیست گوارا کرلیں،

بن تیرے کیسے غم زیست گوارا کرلیں،
اس سے بہتر ہے کہ دنیا سے کنارہ کرلیں

،

ساتھ ممکن نہیں چلنا تو چلو یونہی سہی،
دور سے ہی تیرے چہرے کا نظارہ کرلیں

،

آج تک ہو نہ سکا تو تو ہمارا لیکن،
کیوں نہ ہم خود کو میری جان تمہارا کرلیں

،

قربتیں اپنے مقدر میں نہیں ہیں شاید،
کیوں نہ ہم ہجر کو قسمت کا ستارہ کر لیں

،

ممکن ہے کہ پھر وہ نہ رہے میں نہ رہوں،
ان سے کہدو میرے درد کا نظارہ کرلیں

.

نوشی گیلانی

مجھے تم یاد آتے ہو۔۔۔۔

مجھے تم یاد آتے ہو۔۔۔۔
بہت زیادہ نہیں لیکن۔۔۔۔۔۔
خوشی میں اور غم میں
بارشوں میں بھیگتے اور سردیوں کی دھوپ میں بیٹھے
پرانی ڈائری کے حاشیوں میں ،
تمہارے کھلکھلاہٹ سے بھرے
جملوں کو پڑھ کر مسکراتے
اور تمہارے کارڈز کو
ہر بار اک نئی ترتیب سے رکھتے
جنم دن پر
ہر اک تہوار پر
سچ میں ۔۔۔
مجھے تم یاد آتے ہو
بہت زیادہ نہیں لیکن
مری ہر سوچ میں دھڑکن میں
سانسوں کے تسلسل میں
مجھے بھولے ہوئے ساتھی
مجھے تم یاد آتے ہو۔۔۔۔۔۔

عاطف سعید

Monday 30 May 2016

کوئی حد نہیں ہے کمال کی

کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے جمال کی

 

وہی قرب و دور کی منزلیں
وہی شام خواب و خیال کی

 

نہ مجھے ہی اس کا پتہ کوئی
نہ اسے خبر مِرے حال کی

 

یہ جواب میری صدا کا ہے
کہ صدا ہے اس کے سوال کی

 

یہ نمازِ عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی

 

وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی

 

ہے منیر تیری نگاہ میں
کوئی بات گہرے ملال کی

۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر نیازی

مِلنے کا مَن نہیں تو بہانہ نیاتراش

مِلنے کا مَن نہیں تو بہانہ نیاتراش


اب تو مُکالمے بھی ترےیاد ہوگئے

 

بیزار، بدمزاج، اَنادار، بدلحاظ

،
ایسےنہیں تھےجیسےتیرےبعد ہوگئے

میرا ذکر نہ کرنا


دُکھ درد کے ماروں سے میرا ذکر نہ کرنا
گھر جاؤ تو یاروں سے میرا ذکر نہ کرنا


وہ ضبط نہ کر پائیں گے آنکھوں کے سمندر
تُم غم گُساروں سے میرا ذکر مت کرنا


شاید یہ اندھیرے ہی مجھے راہ دکھائیں گے
اب چاند ستاروں سے میرا ذکر نہ کرنا


وہ میری کہانی کو غلط رنگ نہ دے دیں
افسانہ نگاروں سے میرا ذکر نہ کرنا


لے جائیں گے گہرائی میں تم کو بھی بہا کر
دریا کے کناروں سے میرا ذکر نہ کرنا


وہ شخص ملے تو اُسے ہر بات بتانا
تُم صرف اشاروں سے میرا ذکر نہ کرنا


وصی شاہ

وہ گماں گماں سا پیاس سا،


وہ گماں گماں سا پیاس سا،
کبھی دور سا کبھی پاس سا،
کبھی چاندنی میں چھپا ہوا،
کبھی خوشبوؤں میں بسا ہوا،
کبھی صرف اس کی شباہتیں،
کبھی صرف اس کی حکایتیں،
کبھی صرف ملنے کے سلسلے،
کبھی صرف اس سے ہیں فاصلے،
کبھی دور چلتی ہواؤں میں،
کبھی مینہ برستی گھٹاؤں میں،
کبھی بدگماں ، کبھی مہرباں،
کبھی دھوپ ہے کبھی سائباں،
کبھی بند دل کی کتاب میں،
کبھی لب کشاں وہ خواب میں،
کبھی یوں کہ جیسے سوال ہو،
کبھی یوں کہ جیسے خیال ہو،
کبھی دیکھنے کے ہیں سلسلے،
کبھی سوچنے کے ہیں مرحلے،
کبھی صرف رنگ بہار سا۔۔
کبھی صرف ایک غبار سا۔۔

Saturday 28 May 2016

❤ محبت ❤


میں تو عنوان ِمحبت ہوں اور کچھ بھی نہیں

میری چاہت کا حسیں باب تیری ذات میں ہے

   ❤  

اداسی اوڑھ لیتی ہیں

 

 

گلابی شام کےبڑھتے ہوئےمخمور سائے میں
تھکے ہارے پرندے بھی
گھروں کو لوٹ آتے ہیں
مگرتم ہی نہیں آتے
یہ میری منتظر آنکھیں
افق کے پار تکتی ہیں
میری ان نیم وا آنکھوں کے گوشےبھیگ جاتے ہیں
میری شامیں میری راتیں
اداسی اوڑھ لیتی ہیں

ہجر کے سارے دن ہیں پورے

ہجر کے سارے دن ہیں پورے
لیکن ہے ہر رات ادھوری


لفظوں کی گہرائی میں جھانکو
سمجھو نہ ہر بات ادھوری


نم آنکھیں اور سوکھی پلکیں
ہوتی ہے برسات ادھوری


مجھ سے مجھ کو چھین گئے تم
رہ گئی میری ذات ادھوری

________

میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں

میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں
میں چاہتا ہوں تیرے ہونٹ سے ہنسی نکلے

 

میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے

 

میں چاہتا ہوں مجھے تاقچوں میں رکھا جائے
میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے

 

میں چاہتا ہوں تیرے ہجر میں عجیب ہو کچھ
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے

 

میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے
میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے


تہذیب حآفی

عشق

اے عشق اس قفس سے مجھے اب رہائی دے
دیکھوں جدھر مجھے ترا جلوہ دکھائی دے


شہر شب فراق کے گہرے سکوت میں
اپنی صدا مجھے بھی کبھی تو سنائی دے

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری


اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری

آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری

میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری

آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری

میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری

کبھی یوں بھی تو ہوگا ۔۔۔

کبھی یوں بھی تو ہوگا ۔۔۔
محبّت سر جھکاۓ منتظر ہوگی
اور میں
بنا دیکھے
چپ چاپ
لوٹ جاؤں گی ۔۔۔
جنوں کا دور ختم ہوا
دیوانگی چھوڑ دی ہم نے ۔۔
تمہیں پانے کی امید
اب کہ
ہمیشہ کے لئے توڑ دی ہم نے ۔۔۔۔

زندگی میں تمہاری کمی رہ گئی


یہ کسک کی دل میں چبھی رہ گئی

زندگی میں تمہاری کمی رہ گئی 

ایک میں ایک تم ایک دیوار تھی 
زندگی آدھی آدھی بٹی رہ گئی 

رات کی بھیگی بھیگی چھتوں کی طرح 
میری پلکوں پہ تھوڑی نمی رہ گئی 

ریت پر آنسوؤں نے تیرے نام کی 
جو کہانی لکھی بے پڑھی رہ گئی 

میں نے روکا نہیں وہ چلا بھی گیا 
بےبسی دور تک دیکھتی رہ گئی 

میرے گھر کی طرف دھوپ کی پیٹھ تھی
آتے آتے ادھر چاندنی رہ گئی 

سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی

سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی
سرِشام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی

 

مرا خوش خرام ، بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی

 

مرے سارے حرف تمام حرفِ عذاب تھے
مرے کم سُخن نے سُخن کیا تو خبر ہوئی

 

کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا
مرے بےوفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی

 

مرے ہمسفر کے سفر کی سمت ہی اور تھی
کہیں راستہ گُم ہوا تو خبر ہوئی

 

مرے قصہ گو نے کہاں کہاں سے بڑھالی بات
مجھے داستاں کا سرا ملا تو خبر ہوئی

 

(افتخار عارف )

کبھی کبھی یوں کیوں ہوتا ہے؟


چہرہ کوئی ہوتا ہے

 
پر اور کسی چہرے کا گماں گزرتا ہے

 
پھر چند لمحوں کی خاطر

 
ہم اردگرد سے کٹ جاتے ہیں

 
یادوں کے خوش رنگ جہانوں میں

 
بٹ جاتے ہیں

 
نہ موسم ہوش کا ہوتا ہے

 
نہ لہر جنوں کی ہوتی ہے

 
کبھی کبھی یوں کیوں ہوتا ہے؟

Friday 27 May 2016

ﺗﻤﮩﯿﮟ ہنستا ہوﺍ ﺳُﻦ ﻟﻮﮞ ،



ﺗﻤﮩﯿﮟ ہنستا ہوﺍ ﺳُﻦ ﻟﻮﮞ ،
ﺗﻮ ﺳﺎﺗﻮﮞ ﺳُﺮ
ﺳﻤﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎ ﮐﺮ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﮯ ہیں
ﮐﺒﮭﯽ ﺗُﻢ ﺭﻭﭨﮭﺘﮯ ہو ، ﺗﻮ
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺍﭨﮑﻨﮯ ﺍﻭﺭ ،
ﺩﮬﮍﮐﻦ ﺗﮭﻤﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ہے
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ
ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ____ ہر ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺳﮯ
ﺁﺷﻨﺎ ہوﮞ ﻣَﯿﮟ ﻣﮕﺮ ____ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑُﮭﻼ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ
ﺟﺎنتے ہو ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮐﯿﺎ ہے
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮐﮧ ﻣﺮﮒِ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔا
ﻓﻮﺭﺍً
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣَﯿﮟ ﺑُﮭﻮﻟﻨﺎ ﭼﺎہوﮞ ﮔا
ﺗﻮ ___ ﻣﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔا ﻓﻮﺭﺍ

راستوں میں کوئی رستہ معتبر ایسا تو ہو

راستوں میں کوئی رستہ معتبر ایسا تو ہو
منزلیں نازاں ہوں جس پر اک سفر ایسا تو ہو

 

شام ڈھلتے ہی ہمیں زنجیر پہنانے لگے
محفلوں میں بھی ہمیں یاد آئے گھر ایسا تو ہو

 

جس کے دامن میں اُلٹ دیں اپنے دل کی کرچیاں
اس ہجومِ شہر میں اک چارہ گر ایسا تو ہو

 

پھر کہیں مل جائیں ہم ترکِ تعلق کے لیئے
ہجر جان لیو اسہی ، بار دگر ایسا تو ہو

 

کس لیئے ہم زحمتِ آرائش ِ خانہ کریں
حالِ دل جیسا ہے ، رنگِ بام و در ایسا تو ہو

 

بے نوا گلیوں میں ہم کیا دستکیں دیتے پھریں
کوئی ساجد صاحبِ زنجیرِ در ایسا تو ہو

 

اعتبار ساجد

Thursday 26 May 2016

ہم بلائیں تو انہیں کام نکل آتے ہیں


بے سبب یونہی سرِ شام نکل آتے ہیں
ہم بلائیں تو انہیں کام نکل آتے ہیں

روتے روتے جو ہنسا ہوں تو تعجب کیاہے
سختیوں میں بھی تو آرام نکل آتے ہیں

ایک مجنوں ہی نہیں دشت میں تنہا ٹھہرا
رونے والوں میں کئی نام نکل آتے ہیں

بارہا پہنچے ہیں دربار میں اوروں کی طرح
دام لگتے ہیں تو بے دام نکل آتے ہیں

نئی تہذیب کے روزن سے یہ دیکھا منظرؔ
سچ کے اظہار سے ابہام نکل آتے ہیں


منظرؔ نقوی

گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا


گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا

یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا

روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا

وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں سنبھالے ہُوئے رکھّے وہ جو ہم سا ہوگا

ہم سمجھ لیتے ہیں داغوں کے سُلگنے پہ خلش
درد جب حد سے گُزر جائے تو کم سا ہوگا

شفیق خلش

لمحہ بھر رُکنا پڑا، گو میں بڑی عجلت میں تھا

لمحہ بھر رُکنا پڑا، گو میں بڑی عجلت میں تھا

اک بُلاوا سا عجب، اس اجنبی صورت میں تھا


رات کے آنگن میں رقصاں تھی اُمیدِ صبحِ نو

نور کا اک دائرہ بھی، حلقہء ظلمت میں تھا


وہ دھڑکتے دل نکل بھاگے حصارِ ضبط سے

دشت دور سوئے ہوئے تھے، وقت بھی غفلت میں تھا


اُس کا افسردہ تبسم، میری پھیکی سی ہنسی

منعکس دونوں کا غم اک لمحہء رخصت میں تھا


سنگ پیکر لوگ بھی اندر سے تھے ٹوٹے ہوئے

عکسِ احساسِ شکست آئینہء نخوت میں تھا


تجھ سے دور آکر کبھی سوچا تو حیرانی ہوئی

خودفراموشی کا عالم جو تری قربت میں تھا


دیکھ کر دشمن کی کم تدبیریاں، دل ہے اُداس

اُس کے حصے کا بھی غم کھانا مری قسمت میں تھا


لفظ کی محفل تک آتے آتے بےجلوہ ہوا

جلوہ گر جو حسنِ معنی ذہن کی خلوت میں تھا


اب اُسے مخمور! میں کس نام سے آواز دوں

وہ، کہ جس کے سامنے تھا، اک نئی صورت میں تھ

میں تجھے محسوس کرنا چاہتی ہوں



مجھ کو اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے

کتنے زمانے ہوگئے ہیں

سُرمئی شاموں کے پہرے میں

طلب کی ریت پر تنہائی ننگے پیر چلتی ہے

تو میرا دل وصالِ معنی سے بچھڑے ہوئے

اک حرفِ تنہا کی طرح بجھ جاتا ہے

میری سحر سے رات

جب سرگوشیاں کرتی ہے

تو کوئی بھی اک لبریز لمحہ جسم سے باہر نہیں آتا

نہ ہونٹوں پر کوئی بوسہ

مرے احوال کی تمہید باندھتا ہے

یہی ہوتا ہے میری آرزو کے سب سِرے

حسرت کی تاروں میں اُلجھ کر

میرے اندر سانس تو لیتے ہیں

لیکن تیرے دل سے میرے دل تک

فاصلوں کی وہ جو

اک دیوار حائل ہے

وہ جوں کی توں ہمارے درمیاں

موجود رہتی ہے

وہ تنہائی وہ برسوں کی خموشی

(جوگماں کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے)

میرا سایہ بن کے میرے ساتھ رہتی ہے

دلِ خاموش اس سب سلسلے سے تھک گیا ہے

اس سے پہلے لاتعلق اور لمبی تلخیوں کی

یہ کہانی زرد پڑ جائے

یہ چُپ دیمک کی مانند

زندگی کو چاٹ جائے

میں یقیں کےساتھ

تجھ کو اور تیری روح کو

محسوس کرنا چاہتی ہوں

رات دن خوشبو کی مانند

تیری چاہت اور سنگت میں مہکنا چاہتی ہوں۔۔۔

تیری یاد کے موسم تیرے نام کی آہٹ



تیری راہ میں رکھ کر اپنی شام کی آہٹ

دم بخود سی بیٹھی ہے میرے بام کی آہٹ


کیوں ٹھہر گئی دل میں اُس قیام کی آہٹ

کیوں گزر نہیں جاتی اُس مقام کی آہٹ


ہاتھ کی لکیروں سے کس طرح نکالوں میں

تیری یاد کے موسم تیرے نام کی آہٹ


آنکھ میں مچلتی ہے روح میں تڑپتی ہے

اُس پیام کی آواز اُس قیام کی آہٹ


جب یہ دل رفاقت کی کچی نیند سے جاگا

ہر طرف سنائی دی اختتام کی آہٹ


فرقتوں کے بوسیدہ ساحلوں پہ اُتری تو

ہر طرف تھی بس تیرے صبح و شام کی آہٹ


رات کے اُترتے ہی دل کی سُونی گلیوں میں

جاگ اُٹھتی ہے پھر سے تیرے نام کی آہٹ


بیٹھ جاتی ہے آکر در پہ کیوں مرے ناہید

تیرے ساتھ کی خوشبو، تیرے گام کی آہٹ​

کتبہ (1)


خدایا! نہ میں نے کہیں سر جھکایا

نہ دنیا میں احسان اب تک کسی کا اٹھایا

مرے سر پہ جب دھوپ ہی دھوپ تھی

اس گھڑی میں نہ ڈھونڈھا کہیں کوئی سایا

تو اب تُو ہی آ کر مری آبرو کو بچا لے

یہی ایک تحفہ ہے

جو میں ترے پائے اقدس پہ رکھ دوں گا

اور یہ کہوں گا

یہی میری پونجی، یہی ہے کمائی

مجھے اور کچھ بھی عطا کر نہ پائی

یہ تیری خدائی

خدایا

مری نذرِ بے مایہ کو دیکھ کر

جس خزانے میں اس کی جگہ ہو

اب وہاں پر اسے ڈال دے

تمام یادیں مہک رہی ہیں


تمام یادیں مہک رہی ہیں، ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے

زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے


یہ سچ ہے کھائے ہیں میں نے دھوکے، مگر نہ چاہت سے کوئی روکے

بجھے بجھے سے چراغِ دل میں بھی ایک شعلہ چھپا ہوا ہے


کچھ اور رسوا کرو ابھی مجھ کو تا کوئی پردہ رہ نہ جائے

مجھے محبّت نہیں جنوں ہے، جنوں کا کب حق ادا ہوا ہے


میں اور خود سر، میں اور سر کش، ہوا ہوں تلقینِ مصلحت سے

مجھے نہ اس طرح کوئی چھیڑے، یہ دل بہت ہی دکھا ہوا ہے


ملا جو اک لمحۂ محبّت، یہ پوچھ اس کی ہے کتنی قیمت

اب ایسے لمحوں کا تذکرہ کیا، کبھی جو وہ بے وفا ہوا ہے


یہ درد ابھرا ہے عہدِ گل میں، خدا کرے جلد رنگ لائے

نہ جانے کب سے سلگ رہا ہے، نہ جانے کب کا دبا ہوا ہے


وفا میں برباد ہو کے بھی آج زندہ رہنے کی سوچتے ہیں

نئے زمانے میں اہلِ دل کا بھی حوصلہ کچھ بڑھا ہوا ہے


ہر ایک لَے میری اکھڑی اکھڑی سی، دل کا ہر تار جیسے زخمی

یہ کون سی آگ جل رہی ہے، یہ میرے گیتوں کو کیا ہوا ہے

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے

ہجر کی پُوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے


دِل کا کیا ہے دِل نے کتنے منظر دیکھے لیکن

آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے


کس نے ریت اُڑائی شب میں آنکھوں کھول کے رکھیں

کوئی مثال تو ہو ناں اس کی مثال سے پہلے


کارِ محبت ایک سفر ہے اِس میں آ جاتا ہے

ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے


عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ

جتنا ممکن ہو طے کر لیں گر دِ ملال سے پہلے