affiliate marketing Famous Urdu Poetry: September 2017

Thursday 28 September 2017

Nah ab woh dost hain by Maryam Sheikh

نہ اب وہ دوست ہیں
نہ اب وہ قصے کہانیاں ہیں
نہ اب کوئی حال پوچھتا ہے
نہ اب کوئی حال سُناتا ہے
نہ اب کوئی میری سیٹ  کے لیے لڑتا ہے
نہ اب کوئی ٹریٹ کے لیے لڑتا ہے
نہ اب کوئی بارش میں نہاتا ہے
نہ اب کوئی سموسہ کھلاتا ہے
نہ اب کوئی میری اسائنمنٹ کاپی کرتا ہے
نہ اب کوئی اگزیمز کی رات ہنساتا ہے
نہ اب کوئی بنک کرتا ہے
نہ اب کوئی پروکسی لگواتا ہے
نہ اب کوئی کیک کاٹتا ہے
نہ اب کوئی گفٹ دیتا ہے
نہ اب کوئی مسیج سین کرتا ہے
نہ اب کوئی کمینٹ کرتا ہے
نہ اب کوئی بھائی کی گاڑی چرا کے لاتا ہے
نہ اب کوئی سارا لاہور گھماتا ہے
نہ اب کوئی کافی ساتھ پیتاہے
نہ اب کوئی کش ساتھ لگاتا ہے
نہ اب کوئی وہ جھوٹی منگنی کی خبریں اڑاتا ہے
نہ اب کوئی بریک اپ پے ٹریٹ مانگتا ہے
نہ اب کوئی فلموں ڈراموں پر بحث کرتا ہے
نہ اب کوئی میرے کرش میں کیڑے نکالتا ہے
نہ اب کوئی پیزا ہٹ جاتا ہے
نہ اب کوئی بریانی کھلاتا ہے
نہ اب کوئی میچنگ کپڑے پہنتا ہے
نہ اب کوئی پینڈو کہہ کر دل جلاتا ہے
نہ اب کوئی میری جینز پہنتاہے
نہ اب کوئی میری پاکٹ منی چراتا ہے
نہ اب کوئی میرے پیسوں سے کھاتا ہے
نہ اب کوئی میری چیزیں چھپاتا ہے
نہ اب کوئی میری چاکلیٹس کھاتا ہے
نہ اب کوئی کوک پلاتا ہے
نہ اب کوئی میرے لیے لڑتا ہے
نہ اب کوئی مجھ سے لڑتا ہے
نہ اب وہ دوستوں کی چھیڑ چھاڑ ہے
نہ اب وہ قہقہوں کی بوچھاڑ ہے
نہ اب کوئی میری شادی پے آنے کا پلین کرتا ہے
نہ اب کوئی اپنی پے بلاتا ہے
نہ اب وہ پہلے سے دن ہیں
نہ اب وہ پہلی سی راتیں ہیں
نہ اب کوئی ساتھ ہنستا ہے
نہ اب کوئی ساتھ روتا ہے

اب اور کیا بتاؤں
کالج کا وہ چپا چپا اب اداس رہتا ہے
جہاں کبھی قہقوں کی بوچھاڑ ہوتی تھی

ہماری سرگوشیوں کا گواہ وہ درخت
اب ویرانیوں سے اجڑ گیا
ان گول گپوں کا کیا پوچھتے ہو صاحب
وہ ٹھیلا بھی اب ختم ہوگیا ہے
وہ جن ہواؤں میں بسی تھیں دوستی کی خوشبوئیں
وہ ہوائیں بھی اب رخ موڑ گئیں ہیں
وہ اب واٹس ایپ پروفائل پر گزارا کرنے والے دوست
سمجھتے ہیں مرنے والے کا حال اچھا ہے
وقت کی آندھیوں نے رخ ایسا موڑا ہے
کوئی جیے یا مرے اب کس کو تھوڑا ہے
وہ دن اب اداس رہتے ہیں
وہ راتیں بھی اب سسکتی ہیں
وہ ہزاروں کی جھرمٹ میں سجا چاند
اب اکیلا ہی ہنستا ہے
اب اکیلا ہی روتا ہے
وہ دن بھی اب گئے
وہ راتیں بھی اب گئیں
جب روتے تھے تو یار ہوتے تھے
جب ہنستے تھے تو یار ہوتے تھے


Wednesday 27 September 2017

Wo dost ab nahi rahy (old & beautiful memories)

نہ اب وہ دوست ہیں 
نہ اب وہ قصے کہانیاں ہیں 
نہ اب کوئی حال پوچھتا ہے 
نہ اب کوئی حال سُناتا ہے 
نہ اب کوئی میری سیٹ  کے لیے لڑتا ہے 
نہ اب کوئی ٹریٹ کے لیے لڑتا ہے 
نہ اب کوئی بارش میں نہاتا ہے 
نہ اب کوئی سموسہ کھلاتا ہے 
نہ اب کوئی میری اسائنمنٹ کاپی کرتا ہے 
نہ اب کوئی اگزیمز کی رات ہنساتا ہے 
نہ اب کوئی بنک کرتا ہے 
نہ اب کوئی پروکسی لگواتا ہے 
نہ اب کوئی کیک کاٹتا ہے 
نہ اب کوئی گفٹ دیتا ہے 
نہ اب کوئی مسیج سین کرتا ہے 
نہ اب کوئی کمینٹ کرتا ہے 
نہ اب کوئی بھائی کی گاڑی چرا کے لاتا ہے 
نہ اب کوئی سارا لاہور گھماتا ہے 
نہ اب کوئی کافی ساتھ پیتاہے 
نہ اب کوئی کش ساتھ لگاتا ہے 
نہ اب کوئی وہ جھوٹی منگنی کی خبریں اڑاتا ہے 
نہ اب کوئی بریک اپ پے ٹریٹ مانگتا ہے 
نہ اب کوئی فلموں ڈراموں پر بحث کرتا ہے 
نہ اب کوئی میرے کرش میں کیڑے نکالتا ہے 
نہ اب کوئی پیزا ہٹ جاتا ہے 
نہ اب کوئی بریانی کھلاتا ہے 
نہ اب کوئی میچنگ کپڑے پہنتا ہے 
نہ اب کوئی پینڈو کہہ کر دل جلاتا ہے
نہ اب کوئی میری جینز پہنتاہے 
نہ اب کوئی میری پاکٹ منی چراتا ہے 
نہ اب کوئی میرے پیسوں سے کھاتا ہے 
نہ اب کوئی میری چیزیں چھپاتا ہے 
نہ اب کوئی میری چاکلیٹس کھاتا ہے 
نہ اب کوئی کوک پلاتا ہے 
نہ اب کوئی میرے لیے لڑتا ہے 
نہ اب کوئی مجھ سے لڑتا ہے 
نہ اب وہ دوستوں کی چھیڑ چھاڑ ہے 
نہ اب وہ قہقہوں کی بوچھاڑ ہے 
نہ اب کوئی میری شادی پے آنے کا پلین کرتا ہے 
نہ اب کوئی اپنی پے بلاتا ہے 
نہ اب وہ پہلے سے دن ہیں 
نہ اب وہ پہلی سی راتیں ہیں 
نہ اب کوئی ساتھ ہنستا ہے 
نہ اب کوئی ساتھ روتا ہے 
اب اور کیا بتاؤں 
کالج کا وہ چپا چپا اب اداس رہتا ہے 
جہاں کبھی قہقوں کی بوچھاڑ ہوتی تھی 

ہماری سرگوشیوں کا گواہ وہ درخت 
اب ویرانیوں سے اجڑ گیا 
ان گول گپوں کا کیا پوچھتے ہو صاحب 
وہ ٹھیلا بھی اب ختم ہوگیا ہے
وہ جن ہواؤں میں بسی تھیں دوستی کی خوشبوئیں 
وہ ہوائیں بھی اب رخ موڑ گئیں ہیں

 وہ اب واٹس ایپ پروفائل پر گزارا کرنے والے دوست 
سمجھتے ہیں مرنے والے کا حال اچھا ہے 
وقت کی آندھیوں نے رخ ایسا موڑا ہے 
کوئی جیے یا مرے اب کس کو تھوڑا ہے
وہ دن اب اداس رہتے ہیں 
وہ راتیں بھی اب سسکتی ہیں 
وہ ہزاروں کی جھرمٹ میں سجا چاند 
اب اکیلا ہی ہنستا ہے 
اب اکیلا ہی روتا ہے
وہ دن بھی اب گئے 
وہ راتیں بھی اب گئیں 
جب روتے تھے تو یار ہوتے تھے 
جب ہنستے تھے تو یار ہوتے تھے 

"مریم شیخ"

Wednesday 20 September 2017

میری سانسوں کی روانی ہے



بات بے بات تم مجھ سے

 ناراض ہوجاتے هو

 برا سا منہ بنا کر .. خاموش ہوجاتے هو

 میں تمھیں کتنا مناتی ہوں

 پر تم تو ضد پر ہی اڈھ جاتے هو

 آخر تنگ اکر میں کہتی ہوں 

جب میں نہ ہونگی تو یاد کرو گۓ تم۔

اس بات کو سن کر تم

 بے ساختہ مسکراتے هو

 میرا ہاتھ تھامتے هو پھر کہتے چلے جاتے هو

 تم جو نہ ہوگی تو میں بھی جی نہ سکوں گا

 کے کس سے روٹھوں گا .

اور میں کس سے لڑوں گا

 تم ہی تو میرے جیون کی لڑی هو

 دل کا سکون اور روح کی خوشی هو

 میری زندگی کی حیات هو . 

میری آرزو میرا خواب هو

 میرا غرور هو میری دوستی کی میراج هو

میرا یہ روٹھ جانا تو

 تم سے الفت کی نشانی ہے

 کے دوستی میں روٹھنا منانا تو روز کی کہانی ہے

 بات بے بات پر منہ بناتا ھوں

 اور تمھیں بے حد ہنستا ھوں

 کے تمہاری یہی مسکان

 میری سانسوں کی روانی ہے

 عینی اسد

Saturday 16 September 2017

یقین توڑے ۔۔۔۔ گمان چھینے



یقین توڑے ۔۔۔۔ گمان چھینے
ملے جو فرصت تو سوچنا کہ
تمہارے لفظوں نے میری آنکھوں سے
کیسے کیسے جہان چھینے
سکون لے کر ۔۔۔۔۔۔قرار لے کر
بس ایک پل میں جھٹک کے دامن
بدل کے رستہ چلے گئے ہو
شکستگی کے عذاب دے کر

وہی ہیں اآنسو ۔۔۔۔ وہی ہیں نالے

عمر بھر کی مسافتوں کے

بعد جسکو پتا چلے کہ

بھٹک گیا ہوں میں راستے سے

بتاؤ ہمدم ذرا یہ مجھکو

وہ اشک روکے یا ___دل سنبھالے


میں وہ ساری جگہیں دیکھنا چاہتی ہوں



میں وہ ساری جگہیں دیکھنا چاہتی ہوں
جنھیں تمھاری موجودگی نے مرتعش کر دیا
میں ان تمام راستوں سے گزرنا چاہتی ہوں
جن پر تمھارے قدموں نے منزلیں تراشیں
میں ان ہواؤں کو پینا چاہتی ہوں
جنھیں تمھاری خوشبو نے سیراب کیا
میں وہ ساری کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں
جن کے حروف تمھارے مطالعے سے روشن ہیں
میں ان ساری چیزوں کو چھونا چاہتی ہوں
جنھیں تمھارے لمس نے جاوداں کردیا
میں تمھیں بالواسطہ یا بلاواسطہ
ایک لمحے کو بھی پا سکوں
تو صدیاں اسے دان کردوں گى

Tuesday 12 September 2017

Chehray by Sophia

آج مجھے  پتا چلا
  چہرے  خوشیوں  سے  نہیں  
تکلیفوں سے  بدلتے  ہیں