اوڑھے ہوئے ہیں کب سے ردائے سراب ہم
ذروں میں دیکھتے ہیں ستاروں کے خواب ہم
اک موج تہ نشیں ہیں تہِ بحر جستجو
چلتے ہیں آسمان پہ پا در رکاب ہم
وابستۂ شب غم ہجراں ہوئے تو کیا
کچھ تو لگا ہی لیں گے سحر کا حساب ہم
پھرتے ہیں کوئے دیدہ وراں میں لیے ہوئے
پابستگی دربدری کا عذاب ہم
اس عہد دلفریب میں شاید کہ بھول جائیں
ایام رفتگاں کی شکستہ کتاب ہم
کیا رات تھی کہ دن بھی اندھیروں میں کھو گیا
شاید کہ رہ گئے ہیں پس آفتاب ہم
خالد سواد ہجر سے نکلے تو ہو گئے
آوارۂ دیار شب ماہتاب ہم
No comments:
Post a Comment