یوں راہِ وفا کی صلیب پر دو قدم اُٹھانے کا شُکریہ
بڑا پُر خطر تھا یہ راستہ ، تیرے لوٹ جانے کا شُکریہ
جو اُداس ہیں تیرے ھِجر میں ، جنھیں بوجھ لگتی ہیے زندگی
اُنہیں دیکھ کر سرِ بزم یوں ، تیرا منہ چُھپانے کا شُکریہ
تیری یاد کِس کِس بھیس میں میرے شعر و نغمہ میں ڈھل گئی
یہ کمال ہے تیری یاد کا ، مُجھے یاد آنے کا شُکریہ
مُجھے عِلم ہے نہیں مِٹ سَکی تھی جو گُفتگو کی وہ تشنگی
مِلا دِید سے بھی سَکوں مُجھے ، سرِ بام آنے کا شُکریہ
ہے زمانے بھر کا اصول جو ، وہ اصول تُم نے نبھا دیا
یہ رسم ٹھہرے گی معتبر ، مجھے بھول جانے کا شُکریہ
مُجھے خستہ حال سا دیکھ کر تیرے ہونٹ پھول سے کِھل اُٹھے
مجھے غم نہیں ، مجھے دیکھ کر تیرے مُسکرانے کا شُکریہ.
ہائے...... ظالم......
ReplyDeleteکمال
ReplyDelete