میرے بدن پہ تیرے وصل کے گلاب لگے
یہ میری آنکھوں میں ، کس رُت میں , کیسے خواب لگے ؟
تمہارے ملنے کا مل کر بھی کب یقیں آیا
یہ سلسلہ ھی محبت کا ایک سراب لگے
نہ پُورا سوچ سکوں ، چھو سکوں ، نہ پڑھ پاؤں
کبھی وہ چاند ، کبھی گُل ، کبھی کتاب لگے
نہیں ملا تھا تو برسوں گزر گئے یوں ھی
پر اب تو اس کے بنا ھر گھڑی ، عذاب لگے
ھمیں تو اچھا ھی لگتا رھے گا وہ ، حیدر
بلا سے ھم اُسے اچھے لگے ، خراب لگے
No comments:
Post a Comment