You can Read All Types of Poetry, Urdu Poetry, Sad Poetry , Romantic Poetry , Birthday Poetry , Classical Poetry, Imagesss Poetry, LonG Poetry , Ashhar , Qathat , Nazam and Ghazal of your Favourite Poets.
Pages
▼
Tuesday, 31 May 2016
کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو
کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر ـــ
اِک اوجھل بے کلی رہنے دو
بن تیرے کیسے غم زیست گوارا کرلیں،
بن تیرے کیسے غم زیست گوارا کرلیں،
اس سے بہتر ہے کہ دنیا سے کنارہ کرلیں
،
ساتھ ممکن نہیں چلنا تو چلو یونہی سہی،
دور سے ہی تیرے چہرے کا نظارہ کرلیں
،
آج تک ہو نہ سکا تو تو ہمارا لیکن،
کیوں نہ ہم خود کو میری جان تمہارا کرلیں
،
قربتیں اپنے مقدر میں نہیں ہیں شاید،
کیوں نہ ہم ہجر کو قسمت کا ستارہ کر لیں
،
ممکن ہے کہ پھر وہ نہ رہے میں نہ رہوں،
ان سے کہدو میرے درد کا نظارہ کرلیں
.
نوشی گیلانی
مجھے تم یاد آتے ہو۔۔۔۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔۔۔۔
بہت زیادہ نہیں لیکن۔۔۔۔۔۔
خوشی میں اور غم میں
بارشوں میں بھیگتے اور سردیوں کی دھوپ میں بیٹھے
پرانی ڈائری کے حاشیوں میں ،
تمہارے کھلکھلاہٹ سے بھرے
جملوں کو پڑھ کر مسکراتے
اور تمہارے کارڈز کو
ہر بار اک نئی ترتیب سے رکھتے
جنم دن پر
ہر اک تہوار پر
سچ میں ۔۔۔
مجھے تم یاد آتے ہو
بہت زیادہ نہیں لیکن
مری ہر سوچ میں دھڑکن میں
سانسوں کے تسلسل میں
مجھے بھولے ہوئے ساتھی
مجھے تم یاد آتے ہو۔۔۔۔۔۔
عاطف سعید
Monday, 30 May 2016
کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے جمال کی
وہی قرب و دور کی منزلیں
وہی شام خواب و خیال کی
نہ مجھے ہی اس کا پتہ کوئی
نہ اسے خبر مِرے حال کی
یہ جواب میری صدا کا ہے
کہ صدا ہے اس کے سوال کی
یہ نمازِ عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
ہے منیر تیری نگاہ میں
کوئی بات گہرے ملال کی
۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر نیازی
مِلنے کا مَن نہیں تو بہانہ نیاتراش
مِلنے کا مَن نہیں تو بہانہ نیاتراش
اب تو مُکالمے بھی ترےیاد ہوگئے
بیزار، بدمزاج، اَنادار، بدلحاظ
،
ایسےنہیں تھےجیسےتیرےبعد ہوگئے
میرا ذکر نہ کرنا
دُکھ درد کے ماروں سے میرا ذکر نہ کرنا
گھر جاؤ تو یاروں سے میرا ذکر نہ کرنا
وہ ضبط نہ کر پائیں گے آنکھوں کے سمندر
تُم غم گُساروں سے میرا ذکر مت کرنا
شاید یہ اندھیرے ہی مجھے راہ دکھائیں گے
اب چاند ستاروں سے میرا ذکر نہ کرنا
وہ میری کہانی کو غلط رنگ نہ دے دیں
افسانہ نگاروں سے میرا ذکر نہ کرنا
لے جائیں گے گہرائی میں تم کو بھی بہا کر
دریا کے کناروں سے میرا ذکر نہ کرنا
وہ شخص ملے تو اُسے ہر بات بتانا
تُم صرف اشاروں سے میرا ذکر نہ کرنا
وصی شاہ
وہ گماں گماں سا پیاس سا،
وہ گماں گماں سا پیاس سا،
کبھی دور سا کبھی پاس سا،
کبھی چاندنی میں چھپا ہوا،
کبھی خوشبوؤں میں بسا ہوا،
کبھی صرف اس کی شباہتیں،
کبھی صرف اس کی حکایتیں،
کبھی صرف ملنے کے سلسلے،
کبھی صرف اس سے ہیں فاصلے،
کبھی دور چلتی ہواؤں میں،
کبھی مینہ برستی گھٹاؤں میں،
کبھی بدگماں ، کبھی مہرباں،
کبھی دھوپ ہے کبھی سائباں،
کبھی بند دل کی کتاب میں،
کبھی لب کشاں وہ خواب میں،
کبھی یوں کہ جیسے سوال ہو،
کبھی یوں کہ جیسے خیال ہو،
کبھی دیکھنے کے ہیں سلسلے،
کبھی سوچنے کے ہیں مرحلے،
کبھی صرف رنگ بہار سا۔۔
کبھی صرف ایک غبار سا۔۔
Saturday, 28 May 2016
ہجر کے سارے دن ہیں پورے
ہجر کے سارے دن ہیں پورے
لیکن ہے ہر رات ادھوری
لفظوں کی گہرائی میں جھانکو
سمجھو نہ ہر بات ادھوری
نم آنکھیں اور سوکھی پلکیں
ہوتی ہے برسات ادھوری
مجھ سے مجھ کو چھین گئے تم
رہ گئی میری ذات ادھوری
________
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں
میں چاہتا ہوں تیرے ہونٹ سے ہنسی نکلے
میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے تاقچوں میں رکھا جائے
میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے
میں چاہتا ہوں تیرے ہجر میں عجیب ہو کچھ
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے
میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے
میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے
تہذیب حآفی
عشق
اے عشق اس قفس سے مجھے اب رہائی دے
دیکھوں جدھر مجھے ترا جلوہ دکھائی دے
شہر شب فراق کے گہرے سکوت میں
اپنی صدا مجھے بھی کبھی تو سنائی دے
اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری
آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری
میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری
کبھی یوں بھی تو ہوگا ۔۔۔
کبھی یوں بھی تو ہوگا ۔۔۔
محبّت سر جھکاۓ منتظر ہوگی
اور میں
بنا دیکھے
چپ چاپ
لوٹ جاؤں گی ۔۔۔
جنوں کا دور ختم ہوا
دیوانگی چھوڑ دی ہم نے ۔۔
تمہیں پانے کی امید
اب کہ
ہمیشہ کے لئے توڑ دی ہم نے ۔۔۔۔
زندگی میں تمہاری کمی رہ گئی
یہ کسک کی دل میں چبھی رہ گئی
زندگی میں تمہاری کمی رہ گئی
ایک میں ایک تم ایک دیوار تھی
زندگی آدھی آدھی بٹی رہ گئی
رات کی بھیگی بھیگی چھتوں کی طرح
میری پلکوں پہ تھوڑی نمی رہ گئی
ریت پر آنسوؤں نے تیرے نام کی
جو کہانی لکھی بے پڑھی رہ گئی
میں نے روکا نہیں وہ چلا بھی گیا
بےبسی دور تک دیکھتی رہ گئی
میرے گھر کی طرف دھوپ کی پیٹھ تھی
آتے آتے ادھر چاندنی رہ گئی
سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی
سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی
سرِشام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی
مرا خوش خرام ، بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
مرے سارے حرف تمام حرفِ عذاب تھے
مرے کم سُخن نے سُخن کیا تو خبر ہوئی
کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا
مرے بےوفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی
مرے ہمسفر کے سفر کی سمت ہی اور تھی
کہیں راستہ گُم ہوا تو خبر ہوئی
مرے قصہ گو نے کہاں کہاں سے بڑھالی بات
مجھے داستاں کا سرا ملا تو خبر ہوئی
(افتخار عارف )
Friday, 27 May 2016
ﺗﻤﮩﯿﮟ ہنستا ہوﺍ ﺳُﻦ ﻟﻮﮞ ،
ﺗﻤﮩﯿﮟ ہنستا ہوﺍ ﺳُﻦ ﻟﻮﮞ ،
ﺗﻮ ﺳﺎﺗﻮﮞ ﺳُﺮ
ﺳﻤﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎ ﮐﺮ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﮯ ہیں
ﮐﺒﮭﯽ ﺗُﻢ ﺭﻭﭨﮭﺘﮯ ہو ، ﺗﻮ
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺍﭨﮑﻨﮯ ﺍﻭﺭ ،
ﺩﮬﮍﮐﻦ ﺗﮭﻤﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ہے
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ
ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ____ ہر ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺳﮯ
ﺁﺷﻨﺎ ہوﮞ ﻣَﯿﮟ ﻣﮕﺮ ____ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑُﮭﻼ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ
ﺟﺎنتے ہو ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮐﯿﺎ ہے
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮐﮧ ﻣﺮﮒِ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔا
ﻓﻮﺭﺍً
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣَﯿﮟ ﺑُﮭﻮﻟﻨﺎ ﭼﺎہوﮞ ﮔا
ﺗﻮ ___ ﻣﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔا ﻓﻮﺭﺍ
راستوں میں کوئی رستہ معتبر ایسا تو ہو
راستوں میں کوئی رستہ معتبر ایسا تو ہو
منزلیں نازاں ہوں جس پر اک سفر ایسا تو ہو
شام ڈھلتے ہی ہمیں زنجیر پہنانے لگے
محفلوں میں بھی ہمیں یاد آئے گھر ایسا تو ہو
جس کے دامن میں اُلٹ دیں اپنے دل کی کرچیاں
اس ہجومِ شہر میں اک چارہ گر ایسا تو ہو
پھر کہیں مل جائیں ہم ترکِ تعلق کے لیئے
ہجر جان لیو اسہی ، بار دگر ایسا تو ہو
کس لیئے ہم زحمتِ آرائش ِ خانہ کریں
حالِ دل جیسا ہے ، رنگِ بام و در ایسا تو ہو
بے نوا گلیوں میں ہم کیا دستکیں دیتے پھریں
کوئی ساجد صاحبِ زنجیرِ در ایسا تو ہو
اعتبار ساجد
Thursday, 26 May 2016
ہم بلائیں تو انہیں کام نکل آتے ہیں
بے سبب یونہی سرِ شام نکل آتے ہیں
ہم بلائیں تو انہیں کام نکل آتے ہیں
روتے روتے جو ہنسا ہوں تو تعجب کیاہے
سختیوں میں بھی تو آرام نکل آتے ہیں
ایک مجنوں ہی نہیں دشت میں تنہا ٹھہرا
رونے والوں میں کئی نام نکل آتے ہیں
بارہا پہنچے ہیں دربار میں اوروں کی طرح
دام لگتے ہیں تو بے دام نکل آتے ہیں
نئی تہذیب کے روزن سے یہ دیکھا منظرؔ
سچ کے اظہار سے ابہام نکل آتے ہیں
منظرؔ نقوی
ہم بلائیں تو انہیں کام نکل آتے ہیں
روتے روتے جو ہنسا ہوں تو تعجب کیاہے
سختیوں میں بھی تو آرام نکل آتے ہیں
ایک مجنوں ہی نہیں دشت میں تنہا ٹھہرا
رونے والوں میں کئی نام نکل آتے ہیں
بارہا پہنچے ہیں دربار میں اوروں کی طرح
دام لگتے ہیں تو بے دام نکل آتے ہیں
نئی تہذیب کے روزن سے یہ دیکھا منظرؔ
سچ کے اظہار سے ابہام نکل آتے ہیں
منظرؔ نقوی
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں سنبھالے ہُوئے رکھّے وہ جو ہم سا ہوگا
ہم سمجھ لیتے ہیں داغوں کے سُلگنے پہ خلش
درد جب حد سے گُزر جائے تو کم سا ہوگا
شفیق خلش