اُس
بے وفا لکھوں یا خود کو لکھوں
ساتھ
میں نے چھوڑا ، اُس نے بھی چھوڑا
اُسے
غرور کے لوگ دیوانے ہیں اُسکے
مجھے
غرور مجھے کوئی جچتا نہیں
اُسے
غرور اپنی ہر اک ادا پر
مجھے
غرور میں کسی پر مرتی نہیں
وہ
حلقہ احباب میں رہنے والے لوگ
میں
موسمِ تنہائی کی عادی لڑکی
وہ
بلا کے انا پرست ٹھهرے
تو میں بھی خودپرست تھی
مجھے
کھو دینے کا خوف ستایا نہیں اسکو
اُس
کے پاس لوگ اور بھی تھے
مجھے
بھی کھو دینے کا خوف رہا نہیں
میں
بھی تنہائی کی اسیر تھی
سادہ
دل عاجزی نرم لہجہ فرنمابردار سب کے
میں
ٹھہری غصے سے پاگل ، ضدی اور باغی لڑکی
اُسے
کیسے راس آتے کہ اتنے فاصلے تھے
جو
اُسے پسند تھے ہمیں ان سے نفرت تھی
*************************
