نہ اب وہ دوست ہیں
نہ اب وہ قصے کہانیاں ہیں
نہ اب کوئی حال پوچھتا ہے
نہ اب کوئی حال سُناتا ہے
نہ اب کوئی میری سیٹ کے لیے لڑتا ہے
نہ اب کوئی ٹریٹ کے لیے لڑتا ہے
نہ اب کوئی بارش میں نہاتا ہے
نہ اب کوئی سموسہ کھلاتا ہے
نہ اب کوئی میری اسائنمنٹ کاپی کرتا ہے
نہ اب کوئی اگزیمز کی رات ہنساتا ہے
نہ اب کوئی بنک کرتا ہے
نہ اب کوئی پروکسی لگواتا ہے
نہ اب کوئی کیک کاٹتا ہے
نہ اب کوئی گفٹ دیتا ہے
نہ اب کوئی مسیج سین کرتا ہے
نہ اب کوئی کمینٹ کرتا ہے
نہ اب کوئی بھائی کی گاڑی چرا کے لاتا ہے
نہ اب کوئی سارا لاہور گھماتا ہے
نہ اب کوئی کافی ساتھ پیتاہے
نہ اب کوئی کش ساتھ لگاتا ہے
نہ اب کوئی وہ جھوٹی منگنی کی خبریں اڑاتا ہے
نہ اب کوئی بریک اپ پے ٹریٹ مانگتا ہے
نہ اب کوئی فلموں ڈراموں پر بحث کرتا ہے
نہ اب کوئی میرے کرش میں کیڑے نکالتا ہے
نہ اب کوئی پیزا ہٹ جاتا ہے
نہ اب کوئی بریانی کھلاتا ہے
نہ اب کوئی میچنگ کپڑے پہنتا ہے
نہ اب کوئی پینڈو کہہ کر دل جلاتا ہے
نہ اب کوئی میری جینز پہنتاہے
نہ اب کوئی میری پاکٹ منی چراتا ہے
نہ اب کوئی میرے پیسوں سے کھاتا ہے
نہ اب کوئی میری چیزیں چھپاتا ہے
نہ اب کوئی میری چاکلیٹس کھاتا ہے
نہ اب کوئی کوک پلاتا ہے
نہ اب کوئی میرے لیے لڑتا ہے
نہ اب کوئی مجھ سے لڑتا ہے
نہ اب وہ دوستوں کی چھیڑ چھاڑ ہے
نہ اب وہ قہقہوں کی بوچھاڑ ہے
نہ اب کوئی میری شادی پے آنے کا پلین کرتا ہے
نہ اب کوئی اپنی پے بلاتا ہے
نہ اب وہ پہلے سے دن ہیں
نہ اب وہ پہلی سی راتیں ہیں
نہ اب کوئی ساتھ ہنستا ہے
نہ اب کوئی ساتھ روتا ہے
اب اور کیا بتاؤں
کالج کا وہ چپا چپا اب اداس رہتا ہے
جہاں کبھی قہقوں کی بوچھاڑ ہوتی تھی
ہماری سرگوشیوں کا گواہ وہ درخت
اب ویرانیوں سے اجڑ گیا
ان گول گپوں کا کیا پوچھتے ہو صاحب
وہ ٹھیلا بھی اب ختم ہوگیا ہے
وہ جن ہواؤں میں بسی تھیں دوستی کی خوشبوئیں
وہ ہوائیں بھی اب رخ موڑ گئیں ہیں
وہ اب واٹس ایپ پروفائل پر گزارا کرنے والے دوست
سمجھتے ہیں مرنے والے کا حال اچھا ہے
وقت کی آندھیوں نے رخ ایسا موڑا ہے
کوئی جیے یا مرے اب کس کو تھوڑا ہے
وہ دن اب اداس رہتے ہیں
وہ راتیں بھی اب سسکتی ہیں
وہ ہزاروں کی جھرمٹ میں سجا چاند
اب اکیلا ہی ہنستا ہے
اب اکیلا ہی روتا ہے
وہ دن بھی اب گئے
وہ راتیں بھی اب گئیں
جب روتے تھے تو یار ہوتے تھے
جب ہنستے تھے تو یار ہوتے تھے
"مریم شیخ"
"مریم شیخ"
No comments:
Post a Comment