تاریکیوں کو شہر سے باہر نکال دو
تِرہ شبی کو صبحِ ازل کا جمال دو
دیوارو در پے شمعیں جلا کے خلوص کی
لوگوں گھروں کو نور کے سانچے میں ڈھال
دو
کس نے دئیے ہیں ان کو کھلونے بارود کے
بچوں کے کند زہن میں روشن خیال دو
اپنی عزیز عمر کے گیسو سنوار کے
دنیا کو قول و فعل کی زندہ مثال دو
تم سے تو دو جہاں فدا منگتا نہیں
جو ہو سکے تو فقیر کی جھولی میں ڈال دو
No comments:
Post a Comment