از : ثانیہ خان
آزاد نظم
دل میں کیا ہے یہ میرے دل تک محدود ہے
میں ہر کسی کو دل کے راز بتاتی نہیں ہوں
لوگوں کے تلخ روئیے معاف تو کر دیتی ہوں مگر
بھروسہ دوبارہ کرتے ہوئے انہیں بھلاتی نہیں
ہوں
خواہ غلط ہوں یا صحیح دوسروں کی سن لیتی ہوں
مگر پھر ہر ایک کو سمجھاتی نہیں ہوں
فطرتاً تو بہت حساس طبیعت ہے میری مگر
ہر کسی کے لیے اپنے آنسو بہاتی نہیں ہوں
ویسے تو سہما ہوا نازک سا دل ہے میرا مگر
کسی کم ظرف کو چھوڑ کر پچھتاتی نہیں ہوں
ہر دل میں بسنے کا شوق نہیں رکھا کبھی میں نے
جن دلوں میں بستی ہوں انہیں ستاتی نہیں ہوں
میں ہر پل میسر ہو سکتی ہوں ہر کسی کے لیے مگر
خاص ہوں یہ کہہ کر اپنے دل کو بہلاتی
نہیں ہوں
یہ حقیقت ہے کہ اک روز تو سب نے بچھڑ جانا ہے
ساتھ رہنے کے جھوٹے خواب کسی کو دکھاتی نہیں
ہوں
میں کس حال میں ہوں یہ راز فقط رب کو بتاتی
ہوں
مگر ہر ایک کو حال دل کھول کر سناتی نہیں ہوں
ثانیٗ اپنوں کے تلخ روئیے چھپا تو لیتی ہوں
آنکھوں میں
مگر پھر بہت دنوں تک انہیں سوچ کر مسکراتی نہیں
ہوں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ثانیہ خاں
صنف :
غزل
ہر دن ہر گھڑی وہ میرے پاس رہتا ہے
کیوں اس کی یاد میں دل اداس رہتا ہے
کیوں دل کو اس کے آنے کا انتظار رہتا ہے
کیوں دل ہر پل لاحاصل کا طلب گار رہتا ہے
وہ راہ محبت میں تنہا کر گیا مجھ کو
نجانے پھر بھی کیوں اس پہ اعتبار رہتا ہے
وہ آج بھی میری آنکھوں میں مثل پیاس رہتا ہے
میں بیٹھی ہوں انتظار میں پھر بھی ناراض رہتا
ہے
میں جانتی ہوں وہ چلا گیا نہیں لوٹے گا کبھی
وہ آرہا ہے ہر پل ذہن میں بس یہ
خیال رہتا ہے
ہر لمحہ اس کی یاد کا دھواں اٹھتا ہے مجھ میں
اور پھر آنکھوں کی نمی پہ بھی کہاں اختیار رہتا
ہے
اسے کہو فقط اک بار لوٹ آئے زندگی میں
میری
ہر شام ثانیٗ کی آنکھوں کو اس کا
انتظار رہتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عشق
ازقلم ثانیہ خان
عشق وہ آگ ہے جو دل میں جلائی جاتی ہے،
ہر درد سے بڑھ کر یہ شدت آزمائی جاتی ہے۔
عشق میں ہار اور جیت کا سوال کہاں،
یہ وہ جنگ ہے جو خود سے لڑائی جاتی ہے
عشق میں کیا مزہ جب تک نہ ہو رسوائی کا خوف،
یہ محبت تو سر عام نبھائی جاتی ہے۔
یہ وہ جنون ہے جو سب حدیں پار کر جائے،
یوں ہر اک سانس میں محبت کی خوشبو سموئی جاتی
ہے۔
یہ دل کی بے خودی ہے یا روح کی روشنی،
عشق کی آگ میں زندگی بھلائی جاتی ہے۔
کبھی وصل کی راحت، کبھی ہجر کا غم،
ہر ایک حال میں دل کی دنیا سنواری جاتی ہے۔
عشق کا سفر طے ہو نہ ہو، فرق نہیں پڑتا،
یہ وہ راہ ہے جو بے سمت چلائی جاتی ہے۔
یہ دل کا سوداگر ہے، عقل کا دشمن،
ثانی عشق میں بس دل کی مان کر زندگی گنوائی
جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ثانیہ خان
ادھوری سی لگتی ہیں
ہم نے چاہا تو اک دوجے کو شدت سے ہے مگر
مجھے یہ چاہتیں بھی ادھوری سی لگتی ہیں
جس شام اسے یاد نہ کرے یہ دل پاگل
مجھے وہ شامیں ادھوری سی لگتی ہیں
ہر رات خواب میں اس کا دیدار ہوتا ہے مجھے
جو نہ دیکھوں اسے راتیں ادھوری سی لگتی ہیں
میری محفلوں میں اس کا ذکر ضروری ہو چکا ہے
جو نہ ہو ایسا تو پھر باتیں ادھوری سی
لگتی ہیں
چائے پسند تھی اس کو اور وہ پی کر ہی جیتا تھا
میں جو نہ پیو تو اپنی عادتیں ادھوری سی لگتی
ہیں
میری شاعری کے لفظ ہے وہ جو میں ہر روز کرتی
ہوں
بن اسے چھیڑے مجھے یہ غزلیں ادھوری سی لگتی
ہیں
مختصر کہوں تو ثانیٗ بات فقط اتنی سی ہے
مجھے بنا اس کے زندگی ادھوری سی لگتی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غزل:
کب تحفظ ملے گا بنتِ حوا کو
شاعرہ: ثانیہ خان
کب تک یہ بنتِ حوا روتی رہے گی؟
عزتوں کا یہ چراغ کب تک بجھایا جائے گا؟
کب تلک یہ دوپٹہ چھین لیا جائے گا؟
کب تک یہ جسم نوچا اور روندا جائے گا؟
پڑھنے گئی تھی وہ، کیا تھا اُس کا قصور؟
کب تک اِسے یوں بے گناہی پہ ستایا جائے گا؟
کب تک وہ ظلمت میں ڈوبی رہے گی تنہا؟
کب تک اِسے یوں ہر روز تڑپایا جائے گا؟
ہنسنے لگی ہے وہ جبر کی زنجیروں کے ساتھ
آخر کب اِسے ان زنجیروں سے بچایا جائے گا؟
کب تک سسکتی رہے گی دل میں یہ فریاد؟
کب تک اِسے حق کہنے پہ دھمکایا جائے گا؟
بیٹی ہے، رحمت ہے، یہ تو رب کا انعام
کب تک اِسے یوں بے دردی سے مٹایا جائے گا؟
اسلامی جمہوریہ، کہاں ہے تیرا اصول؟
کب تک ان مجرموں کو چھپایا جائے گا؟
ہر چیخ، ہر آنسو گواہ ہے ظلم کا
کب تک یہ خونِ ناحق بہایا جائے گا؟
کیا کوئی پناہ ملے گی اِن بیٹیوں کو؟
کب تک اِن کے صبر کو آزمایا جائے گا؟
کب تک سُناٹے میں اپنی آواز دبائے؟
کب تک یہ کرب دل میں چھپایا جائے گا؟
کب ملے گا آخر انھیں عدل و انصاف؟
کب تک اِن کے خوابوں کو چُرایا جائے گا؟
یہ ظلم و ستم کی داستانیں کب تک؟
کیا کبھی ان بیٹیوں کے درد کو بھلایا جائے گا؟
یہ سوال ہے ثانیٓ کا، کب تحفظ ملے گا بنتِ حوا
کو؟
کب تک ہمیں یوں ہی انگاروں پر چلایا جائے گا؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭