affiliate marketing Famous Urdu Poetry

Thursday, 19 December 2024

Qadar poetry by Syeda noor ul ain



قدر....

 

غزل

 

تحریر : نور شاعرہ

 

کسی نے کیا خوب کہا تھا

 

قدر زندگی میں کہا ہوتی ہے

 

نہیں پرکھ پاتے ہم ہیروں کو

 

کے کون خاص سا موتی ہے

 

ابھی تو ساتھ بیٹھ کر کرنی تھی..

 

ارے دل کی وہ ساری باتیں

 

میں تو کہہ بھی نہ پائ تم سے

 

گزر گئ نا جانے کتنی راتیں

 

وہ قصے ہونگے اور کہی کے

 

محبوب ہی سب کچھ ہوتا ہے

 

ہم نے جو بچپن سے ساتھ پائے

 

وہ رشتے ہی تو سب کچھ ہیں

 

چلو روٹھ جانا بھی چلتا ہے

 

یوں جانے کی بات تو نہ کرو

 

ابھی دل بڑا اداس ہے یونہی

 

یادوں میں بس تم ہی رہو

*************’

https://youtube.com/@syedanoor-ul-ainofficial?si=3ILfnR1NsAdWPyiL

Syedanoorulain4444@gmail.com

***********

Sunday, 15 December 2024

Poetry by Muskan Asghar

Poetry by Amina Bajwa






Poetry by Sania Khan

 

از : ثانیہ خان

آزاد نظم

 

دل میں کیا ہے یہ میرے دل تک محدود ہے

میں ہر کسی کو دل کے راز بتاتی نہیں ہوں

 

لوگوں کے تلخ روئیے معاف تو کر دیتی ہوں مگر

بھروسہ دوبارہ کرتے ہوئے انہیں بھلاتی نہیں ہوں

 

خواہ غلط ہوں یا صحیح دوسروں کی سن لیتی ہوں

مگر پھر ہر ایک کو سمجھاتی نہیں ہوں

 

فطرتاً تو بہت حساس طبیعت ہے میری مگر

ہر کسی کے لیے اپنے آنسو بہاتی نہیں ہوں

 

ویسے تو سہما ہوا نازک سا دل ہے میرا مگر

کسی کم ظرف کو چھوڑ کر پچھتاتی نہیں ہوں

 

ہر دل میں بسنے کا شوق نہیں رکھا کبھی میں نے

جن دلوں میں بستی ہوں انہیں ستاتی نہیں ہوں

 

میں ہر پل میسر ہو سکتی ہوں ہر کسی کے لیے مگر

خاص ہوں  یہ کہہ کر اپنے دل کو بہلاتی نہیں ہوں

 

یہ حقیقت ہے کہ اک روز تو سب نے بچھڑ جانا ہے

ساتھ رہنے کے جھوٹے خواب کسی کو دکھاتی نہیں ہوں

 

میں کس حال میں ہوں یہ راز فقط رب کو بتاتی ہوں

مگر ہر ایک کو حال دل کھول کر سناتی نہیں ہوں

 

ثانیٗ اپنوں کے تلخ روئیے چھپا تو لیتی ہوں آنکھوں میں

مگر پھر بہت دنوں تک انہیں سوچ کر مسکراتی نہیں ہوں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ثانیہ خاں

صنف :

غزل

 

ہر دن ہر  گھڑی وہ میرے پاس رہتا ہے

کیوں اس کی یاد میں دل اداس رہتا ہے

 

کیوں دل کو اس کے آنے کا انتظار رہتا ہے

کیوں دل ہر پل لاحاصل کا طلب گار رہتا ہے

 

وہ راہ محبت میں تنہا کر گیا مجھ کو

نجانے پھر بھی کیوں اس پہ اعتبار رہتا ہے

 

وہ آج بھی میری آنکھوں میں مثل پیاس رہتا ہے

میں بیٹھی ہوں انتظار میں پھر بھی ناراض رہتا ہے

 

میں جانتی ہوں وہ چلا گیا نہیں لوٹے گا کبھی

وہ آرہا ہے  ہر پل ذہن میں بس  یہ خیال رہتا ہے

 

ہر لمحہ اس کی یاد کا دھواں اٹھتا ہے مجھ میں

اور پھر آنکھوں کی نمی پہ بھی کہاں اختیار رہتا ہے

 

اسے کہو فقط اک بار لوٹ آئے  زندگی میں میری

ہر  شام ثانیٗ کی آنکھوں کو اس کا  انتظار رہتا ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عشق

ازقلم ثانیہ خان

 

عشق وہ آگ ہے جو دل میں جلائی جاتی ہے،

ہر درد سے بڑھ کر یہ شدت آزمائی جاتی ہے۔

 

عشق میں ہار اور جیت کا سوال کہاں،

یہ وہ جنگ ہے جو خود سے لڑائی جاتی ہے

 

عشق میں کیا مزہ جب تک نہ ہو رسوائی کا خوف،

یہ محبت تو سر عام  نبھائی جاتی ہے۔

 

یہ وہ جنون ہے جو سب حدیں پار کر جائے،

یوں ہر اک سانس میں محبت کی خوشبو سموئی جاتی ہے۔

 

یہ دل کی بے خودی ہے یا روح کی روشنی،

عشق کی آگ میں زندگی بھلائی جاتی ہے۔

 

کبھی وصل کی راحت، کبھی ہجر کا غم،

ہر ایک حال میں دل کی دنیا سنواری جاتی ہے۔

 

عشق کا سفر طے ہو نہ ہو، فرق نہیں پڑتا،

یہ وہ راہ ہے جو بے سمت چلائی جاتی ہے۔

 

یہ دل کا سوداگر ہے، عقل کا دشمن،

ثانی عشق میں بس دل کی مان کر زندگی گنوائی جاتی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ثانیہ خان

ادھوری سی لگتی ہیں

 

ہم نے چاہا تو اک دوجے کو شدت سے ہے مگر

مجھے یہ چاہتیں بھی ادھوری سی لگتی ہیں

 

جس شام اسے یاد نہ کرے یہ دل پاگل

مجھے وہ شامیں ادھوری سی لگتی ہیں

 

ہر رات خواب میں اس کا دیدار ہوتا ہے مجھے

جو نہ دیکھوں اسے راتیں ادھوری سی لگتی ہیں

 

میری محفلوں میں اس کا ذکر ضروری ہو چکا ہے

جو نہ ہو ایسا تو پھر  باتیں ادھوری سی لگتی ہیں

 

چائے پسند تھی اس کو اور وہ پی کر ہی جیتا تھا

میں جو نہ پیو تو اپنی عادتیں ادھوری سی لگتی ہیں

 

میری شاعری کے لفظ ہے وہ جو میں ہر روز کرتی ہوں

بن اسے چھیڑے مجھے یہ غزلیں ادھوری سی لگتی ہیں

 

مختصر کہوں تو ثانیٗ بات فقط اتنی سی ہے

مجھے بنا اس کے زندگی ادھوری سی لگتی ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

غزل:

کب تحفظ ملے گا بنتِ حوا کو

شاعرہ: ثانیہ خان

 

کب تک یہ بنتِ حوا روتی رہے گی؟

عزتوں کا یہ چراغ کب تک بجھایا جائے گا؟

 

کب تلک یہ دوپٹہ چھین لیا جائے گا؟

کب تک یہ جسم نوچا اور روندا جائے گا؟

 

پڑھنے گئی تھی وہ، کیا تھا اُس کا قصور؟

کب تک اِسے یوں بے گناہی پہ ستایا جائے گا؟

 

کب تک وہ ظلمت میں ڈوبی رہے گی تنہا؟

کب تک اِسے یوں ہر روز تڑپایا جائے گا؟

 

ہنسنے لگی ہے وہ جبر کی زنجیروں کے ساتھ

آخر کب اِسے ان زنجیروں سے بچایا جائے گا؟

 

کب تک سسکتی رہے گی دل میں یہ فریاد؟

کب تک اِسے حق کہنے پہ دھمکایا جائے گا؟

 

بیٹی ہے، رحمت ہے، یہ تو رب کا انعام

کب تک اِسے یوں بے دردی سے مٹایا جائے گا؟

 

اسلامی جمہوریہ، کہاں ہے تیرا اصول؟

کب تک ان مجرموں کو چھپایا جائے گا؟

 

ہر چیخ، ہر آنسو گواہ ہے ظلم کا

کب تک یہ خونِ ناحق بہایا جائے گا؟

 

کیا کوئی پناہ ملے گی اِن بیٹیوں کو؟

کب تک اِن کے صبر کو آزمایا جائے گا؟

 

کب تک سُناٹے میں اپنی آواز دبائے؟

کب تک یہ کرب دل میں چھپایا جائے گا؟

 

کب ملے گا آخر انھیں عدل و انصاف؟

کب تک اِن کے خوابوں کو چُرایا جائے گا؟

 

یہ ظلم و ستم کی داستانیں کب تک؟

کیا کبھی ان بیٹیوں کے درد کو بھلایا جائے گا؟

 

یہ سوال ہے ثانیٓ کا، کب تحفظ ملے گا بنتِ حوا کو؟

کب تک ہمیں یوں ہی انگاروں پر چلایا جائے گا؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Thursday, 12 December 2024

Sibghatullah poetry by Mani Writes

دل کی ویرانیوں میں  پهول بهرنے والا نام اللّٰہ ہے ⁦️⁩🌸

اور اس دل میں پهولوں کا رنگ   صبغت اللّٰہ ہے 💗🌹

Mani Writes

****************

Thursday, 5 December 2024

December ke naam poetry by Hafiza Shabana Nawaz Amber

دسمبر کے نام

 

سنو ٹھہرتی ہوئی شاموں

ذکر کرتی ہوئی شاموں

مجھے ،میرے ہی آنگن میں

کیے تنہا رکی   شاموں

 

ڈھلے دن کے سبھی سائے

کہ طائر بھی پلٹ آئے

مہر اب تو کدھر جائے

سبھی تارے نکل آئے

 

کہ دن بدلے یا ہوں شامیں

یا ہوں رت کی کئ تانیں

جو دنیا کی سبھی شانیں

مگر سن تو دسمبر اب!

ہے دل کی آس عنبر اب!

یہ سب کچھ چھوڑ کر بدلے

مگر جو صرف نہ بدلے

تو ذی انسان نہ بدلے۔۔

 

حافظہ شبانہ نواز عنبر

*****************

Tuesday, 26 November 2024

Tere firaq me gin gin ke poetry by Filza Gul

تیرے فراق میں گن گن کے گنوائے ہیں جو میں نے، وہ قیمتی اوقات ہو۔

تیرے ہجر میں معلوم نہ ہو مجھ کو اور پھر دن سے رات ہو۔

تجھ کو پانے کی التجا میں میرا وجود ہوا ہے دھول ۔

پھر خواب میں بھی میسر مجھے تیری دھندلی ملاقات ہو۔

ستائش ہے میری کہ ہو تجھ سے کوئی ایسی بھول۔

کہ مسکرائے تو اور پھر مجھ سے غموں کی نجات ہو۔

تیرے ہجر کے سوگ میں زندگی کٹتی جائے اور۔

پھر تجھ پھول کی ایک جھلک ہی میری موت کی سوغات ہو۔

محفلِ حسن ہو اور لُطفِ عشق کی بات ہو۔

پھر اِس راہِ دشت میں فلزہ، تباہی ذکر پہ میری ذات ہو۔

 

شاعرہ: فلزہ گُل

**********