affiliate marketing Famous Urdu Poetry: October 2016

Friday, 28 October 2016

Macha deti hain halchal sham dhaly he teri yadden



مچا دیتی ھیں ہلچل شام ڈھلتے ہی تیری یادیں,

دلٍ نادان_____کا تجھ کو بھلانے کا ارادہ تھا..!!

( محسن نقوی)


Farz kro


فرض کرو

 تمہیں مرے ہوئے ایک سال ہو گیا
کسی دن فرض کرو
کہ تمہیں مرے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے
ایک پل، ایک دن یا ایک مہینہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے لیکن احتیاطاً
ایک سال ہی سہی
فرض کر لو تو کسی عام آدمی کا بھیس بدل کر
اپنے گھر یا اپنے شہر جاؤ
اور لوگوں میں بیٹھ کر اپنا ذکر کرو
اور دیکھو
کہ تم جو ایک مشہور آدمی تھے اور کافی لوگوں میں مقبول بھی
تمہاری موت کے بعد
لوگ جو تمہیں بمشکل یاد رکھے ہوئے ہیں
تمہارے بارے میں گفتگو کرنے میں ذرا بھی دلچسپی محسوس نہیں کرتے
جو جو شخص
تم سے پیار کرتا تھا اتنا
کہ پل بھر کی جدائی بھی اسے عذاب لگتی تھی
اور اس وقت تک کھڑا رہتا تھا
جب تک تم اپنی نشست پر بیٹھ نہیں جاتے تھے
اور کبھی تمہاری آواز سے
اپنی آواز بلند نہیں ہونے دیتا تھا
اب اس کے پاس اتنا وقت نہیں
کہ کہیں بیٹھ کے چند گھڑیاں تمہارے ساتھ بیتے ہوئے لمحات یاد کر سکے
پھر وہاں سے آگے چلو
اور کسی ایسے آدمی کو تلاش کرو
جو تمہاری شاعری پہ دل و جان سے فدا ہو
اور تمہارا اتنا معتقد ہو
کہ ہمہ وقت ہاتھوں میں تمہاری کتابیں اٹھائے
اور ہونٹوں پر تمہارے شعر سجائے پھرتا ہو
لوگوں کو
دن رات تمہاری نظمیں سناتا تھکتا نہ ہو
تم اس سے ملو
اور اس سے گزارش کرو
کہ وہ تمہیں تمہاری نظمیں سنائے
اور تمہارے بارے میں اپنے خیالات اور اپنی معلومات کا اظہار کرے
وہ تمہاری بات سنتے ہی تمہیں اپنے پاس بڑے احترام سے بٹھا لے گا
اور بڑی خوشی اور گہری دلچسپی سے تمہیں تمہاری ساری شاعری سنا ڈالے گا
اور کہے گا
"فرحت شاہ ایک عظیم شاعر تھا
اس کی شاعری پڑھ کے ہوں لگتا ہے
جیسے اس نے لوگوں کے دلوں اور روحوں کے اندر اتر کے شاعری کی ہو
مجھے تو اس کی شاعری سے عشق ہے
یوں لگتا ہے جیسے اس نے سارا کچھ خود میرے متعلق ہی لکھ ڈالا ہے
میرے دل کا عالم اور حالات زندگی
بالکل ایسے ہی ہیں جیسے اس نے لکھا ہے
اس کی ایک ایک سطر پڑھتے ہوئے
مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ بات تو میں خود کہنا چاہتا ہوں"
وہ شخص تمہیں بتاتا جائے گا ایسی ہزاروں باتیں
جن میں تمہارا کم اور اس کا اپنا حوالہ زیادہ ہو گا
ہاں صرف ایک سال بعد
تم جس کسی سے بھی ملو گے
جس سے بھی اپنے بارے پوچھو گے
صورت حال مختلف نہیں ہو گی
گویا تمام باتیں کسی زندہ آدمی کے لیے جاننا تقریباً ناممکن ہے
لیکن پھر بھی
کسی دن تم فرض تو کرو
کہ تمہیں مرے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے
اے میرے گمنام اور اجنبی فرحت شاہ

فرحت عباس شاہ

Thursday, 27 October 2016

Tery khyal k chader


ﺳﺴﮑﺘﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ
ﺗﺮﮮ ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﭘﮧ ﮈﺍﻝ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ


ﻋﻘﯿﺪﺗﻮ ﮞ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻻﺯﻭﺍﻝ ﻧﮕﺮﯼ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ

Ranj kitna bhi kren en ka zamany waly


رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

 

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

 

ایک پل چھین کے انسان کو لے جاتا ہے
پیچھے رہ جاتے ہیں سب ساتھ نبھانے والے

 

لوگ کہتے ہیں کہ تو دور افق پار گیا
کیا کہوں اے مرے دل میں اتر آنے والے

.

جانے والے تری مرقد پہ کھڑا سوچتا ہوں
خواب ہی ہوگئے تعبیر بتانے والے

 

ہر نیا زخم کسی اور کے سینے کا سعودؔ
چھیڑ جاتا ہے مرے زخم پرانے والے

 

شاعر : سعودؔ عثمانی

Ik qisa urtay paton ka


ﺍﮎ ﻗﺼﮧ ﺍﮌﺗﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﺎ .
ﺟﻮ ﺳﺒﺰ ﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﮎ ﻫﻮﮮ

ﺍﮎ ﻧﻮﺣﮧ ﺷﮩﺪ ﮐﮯ ﭼﮭﺘﻮﮞ ﮐﺎ
ﺟﻮ ﻓﺼﻞ ﮔﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﮐﮫ ﮨﻮﺋﮯ

ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ

ﺟﻮ ﺑﯿﭻ ﻧﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﮯ

ﮐﭽﮫ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ
ﺟﻮ ﺑﯿﭻ ﺑﻬﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭦ ﮔﺌﮯ

ﺗﻢ ﺩﺷﺖِ ﻃﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﭨﻬﺮﮔﺌﮯ
ﮨﻢ ﻗﺮﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ ﮔﺌﮯ

ﯾﮧ ﺑﺎﺯﯼ ﺟﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺯﯼ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﺟﯿﺖ ﮔﺌﮯ ﮨﻢ ﮨﺎﺭ ﮔﺌﮯ ۔۔۔
۔

Bohat Mumkin tha


بہت ممکن تھا
میرے پاؤں ،میرے زیست کے
کانٹے نکل جاتے
بہت ممکن تھا
میری راہ کے پتھّر پگھل جاتے
جو دیواریں میرے رستے میں حائل تھیں
میرے آگے سے ہٹ جاتیں
اگر تم آنکھ اٹھا کر دیکھ لیتے
کوہساروں کی طرف اک پل
چٹانیں اک تمہاری جنبش ابرو سے کٹ جاتیں
بہت ممکن تھا
انگاروں بھری اس زندگانی میں
تمہارے پاؤں کے اجلے کنول کھِلتے
رفاقت کی سنہری جھیل میں
دونوں کے عکس ضوفشاں بنتے
بس اک خواب مسلسل کی فضا رہتی
ہماری روح کب ہم سے
خفا رہتی
یہ سب کچھ عین ممکن تھا
اگر تم مجھ کو مل جاتے

(اعتبار ساجد)

Monday, 17 October 2016

Un jheel se ghari ankhon m ik khawab khen abad tu ho


اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

اُس جھیل کنارے پل دو پل

اک خواب کا نیلا پھول کھلے

وہ پھول بہا دیں لہروں میں

اک روز کبھی ہم شام ڈھلے

اُس پھول کے بہتے رنگوں میں

جس وقت لرزتا چاند چلے

اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں اُس بسرے پل کی یاد تو ہو

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

پھر چاہے عُمر سمندر کی

ہر موج پریشاں ہو جائے

ہر خواب گریزاں ہو جائے

پھر چاہے پھول کے چہرے کا

ہر درد نمایاں ہو جائے

اُس جھیل کنارے پل دو پل وہ رُوپ نگر ایجاد تو ہو

دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو


امجد اسلام امجد

Sunday, 16 October 2016

Koe nahi hai

کوئی نہیں ہے

جو اس کو جا کر یقین دلائے

 کہ اب بھی اس کے گماں میں اکثر

ذرا سی آہٹ پہ چونکتے ہیں

جو اس کی قامت کے شک میں ڈالے

ہم اس کو مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں