یہ دنیا بے حیا ہو کر ،حیا کی بات کرتی ہے۔
دوپٹہ کھینچ کے سر سے ،ردا کی بات کرتی ہے۔
تڑپتا
ہے ،بلکتا ہے ،غریبوں کا کوئی بچہ
اجل جب گھیر لے اس کو،غذا کی بات کرتی ہے
حقیقت
کا لبادہ اوڑھنے کو جرم کہتی ہے
سہارا جھوٹ کا لیں تو جزا کی بات کرتی ہے
امیروں
کے جرم عیاش بھی معدوم ہوتے ہیں
غریبوں کے ہنسنے پر ،سزا کی بات کرتی ہے
یہ
دنیا کچھ نہیں دیتی اگر دے چھین لیتی ہے
یہ خود محتاج ہو کر کیوں ،عطا کی بات کرتی ہے۔
کوئی
مزدور بچہ ہو ،غریبوں کا تو چپ قانون
یہ قہقہے طفل ناداں پر خطا کی بات کرتی ہے
یہاں
پر مطلبی ہیں سب،یہ ہرجائی کی دنیا ہے
تیری مسکان نادانی وفا کی بات کرتی ہے
No comments:
Post a Comment