وطن کے نام:
از: فلک میر
اے وطن میں تمھارا ھوں
میں فقط تمھاراہی تو ھوں
سر سے لے کر پاؤں تک
مری ہر جستجو ترے لیے ھے
آغاز سے لے کر انجام تلک
مری خوشی میں ترا ذکر ھے
پالینے سے لیکر کھو دینے تک
مرے جسم میں گردش کرتا
ھر قطرہ لہو کا تمھاراہی تو ھے
مجھے زندہ رکھتی سانسیں
اور زندگی دیتی روح مری
سب تمھارا ہی تو ھے
مرا ھر رستہ،ھر اک منزل
ھر ٹھوکر،ھر کٹھن مرحلہ
ترے واسطے ہی تو جھیلتا ھوں
اے وطن یہ میر تمھارا ہی تو ھے
سانس آنے اور سانس جانے تلک
*****
اے مرے کم نصیب !!!
اے مرے واحد رقیب!!!
ہندوستان کے نام سے
مری سرحدوں پر!!
بتلائے بنا ہی
دھاوا بولنے والے!!
تم کشمیر کے اپنے ٹھرے
چلو تم باوفا!!!
اور ھم بے وفا
تم پارسا!!
ھم کج روا!!
فرق بس اک حرف کا
پھر کیوں ترے من کا
کوئی بھی گوشہ
آسودہ نہیں!!!
میں پرسکوں ھوں
تم بے چین کیوں؟؟؟
یہ فرق بھی تو ملا نہیں
ترے ھاتھوں میں
ھتھاروں کی جگمگاہٹ
مرے ھاتھ میں قلم کی زینت
تم مار دینے کے قائل
اور میں سکوں کا متحمل
*******
مرے شہر کے اداس لوگو!!!
اداس رہنا اب چھوڑ دو تم
کہ وقت اب تو بدل چکا ھے
کوئی بھی تم کو اداس پا کر
کبھی نہ پوچھے گا کیا ھوا ھے
زمانے کی نظروں میں خود کو نہ حقیر جانو
کہ شہدا کا لہو تم سے حساب مانگے
ھمیں لوٹا دو وطن ھمارا!!!
جاؤ اداسی میں رہنے والو!!!
********
میں نے دیکھا تجھے کبھی بھی نہیں
پھر بھی تم کو چاہا ھے
یہ فلسفہ تو پھر غلط ٹھرا
کہ محبت آنکھوں کے رستے
دل میں اتر جایا کرتی ھے
تو نے جو کچھ کہا
میں نے مان لیا
تو یکتا ھے،تو تنہا ھے
مرا تجھ پر ہی ایماں ھے
تو محبت ہی محبت ھے
مرا یقین محکم ھے
تو سمیع ھے ھر اک صدا کا
تو مصور ھے سارے جہاں کا
تو نے کہا تو عرش پر ٹھرا
اور مرا دل بہت اداس ھوا
اور جب مجھے احساس ھوا
کہ تو ،تو شہ رگ سے بھی قریب تر ھے
تو مرا دل خوشی سے جھوم اٹھا
*******
ایک نوٹ
کاش کہ میں ترے ھاتھ کا
اک کڑ کڑاتا ھوا نوٹ ھوتا
تو بڑے مان سے اور چاؤ سے
اک خزانے کی طرح مجھے سنبھالے پھرتی
گردش دوراں کے زیر اثر
جو تو نا امیدی میں گھری ھوتی
پھر فقط میں اور بس میں
تری امیدوں کا واحد مرکز ھوتا
تو مجھے کسی متاع کی طرح
اپنے ھاتھوں میں تھامے پھرتی
ترے ھر اٹکے کاموں پر
پھر اچانک مرا نکلنا ھوتا
تو جس شے پر ھاتھ رکھتی
وہ فقط تیری ھو جاتی
جو اگر میں تری تجوری میں
بڑے مان سے پڑا ھوتا
******
یہ تم ھر بار کیوں؟؟
مری اداسیوں کو
عشق کی نامزدگی کا
چولہ پہنا کر
ان گنت سوال کرتے ھو
تم کیوں سمجھتے ھو؟؟
کہ مری روح جن زخموں سے
ھر بار گھائل رہتی ھے
وہ ناکامی عشق کے
چلائے گئے وار ھونگے
مری آنکھوں کے
اشک بار ھونے کو
کیوں تم ھر بار؟؟
کسی کے چھوڑ جانے کا
صدقہ سمجھتے ھو؟؟
یہ روح تو!!!
انسانیت سے عاری درندوں کی
معصوموں کیساتھ ظلم کے
نئے باب کھولنے والوں کی
فتنہ پروری سے
گھائل رہتی ھے
یہ اشک تو اہل وطن کی
بے حسی اور نادانی پر بہتے ہیں
یہ ھاتھ تو اب بھی لرزتے ہیں
سماعتیں اب بھی شکوہ کناں ہیں
مجھے عشق کی سزا کا
حقدار سمجھنے والو!!!
سنو!!!
میں شہیدوں کے لہو سے ھر روز
شرمندگی سی محسوس کرتا ھوں
amazing poetry by Desert safari Dubai
ReplyDelete