غزل
یاد ہے
وہ پہلی ملاقات جاناں
نہ ہم دل
سنبھال سکے نہ خود کو روک سکے۔۔۔
اسکا ہر
ادا پہ فدا ہوجانا
ہم سے نہ
آنچل سنبھل سکا
نہ ہم زلفیں
سنبھال سکے۔۔۔
رُخ سے
نقاب ہٹایاتو وہ بولے سُنو جاناں !
کون ہے
وہ جو تیرے چہرے کو ریکھے اور شاعری کر نہ سکے
میری آنکھوں
کے کاجل کو چُھو کر میرے دل میں اُترا وہ دلبر۔۔
کیسے بتاٶں دل کا
حال
میری نظریں تو سب
بیاں کرسکیں
اسکی یادوں
کے مہکے گلاب کی خُوشبو
میرے ہونٹوں
کو کیسے چومیں ہم اُسےیہ بتا نہ سکے۔۔
ابھی تو
عشق ہے نیا نیا ابھی تو حال سے بے حال ہوناہے۔
وہ عاشق
ہی کیا جو عشق میں خود کو فناہ کر نہ سکے۔
آنکھوں
کی مستی ہو ہاتھو ں میں ہاتھ ہو۔۔ حسن و شباب
ہو یار پاس ہو۔۔۔
میری بانہیں
پھر کیسے مچل نہ سکیں
لمحوں میں
کٹ گیا صدیوں کا سفر ۔وقت کو روکتے بھی کیسے
ہم نہ اٍس
گیت پہ رقص کر سکے نہ اُس تال پہ گا سکے
تیر ی ذات
ہو مہر میری بات ہو اور شبٍ فراق ہو
ہاۓ کیسے ہو
ممکن کے ایان بہک نہ سکے
مہر کاشف
No comments:
Post a Comment