"کانٹوں بھرے
راستے"
کانٹوں بھرے راستے کی سمت
قدم
پھر کیسے چل پڑے،،
ایسے
ہی کچھ راستے پر
پہلے
بھی تھے زخم لگے،،
میں خود کو روک لیتی ہوں،
انجامِ محبت سوچ لیتی ہوں،،
کہیں تنہائی نہ ہو نصیب میں،،
کہیں رسوائ نہ ہو تقدیر میں،،
بگڑ نہ جاۓ
پھر مقدر میرا،
کہیں غم نہ ملے تعبیر میں،
پہلے بھی تھا اک معصوم اجنبی،،
یونہی نظر تھی اس سے ملی،،
معصوميت سے دھوکہ کھا بیٹھی،،
اس بے پروا سے دل لگا بیٹھی،،
پلٹ جانے سے کیا ہونا تھا،،
پھر پچھتانے سے کیا ہونا تھا،،
اُسے دل میں جو بسا بیٹھی،،
سزا جرم کی میں پا بیٹھی،،
*****
اب
کیا لکھا ہے تقدیر میں،،
کیا ملے اِس خواب کی تعبیر میں،،
میں کیوں کروں اعتبار کسی کا،،
لکھا نہیں مقدر میں پیار کسی کا،،
ذکر میں کیا کروں بے بسی کا
درد بھری اس تحریر
میں
میں کرتی ہوں اکثر دیدار تیرا
آۓ
اجنبی تیری تصویر میں،،
مگر دل تم سے نہیں لگاوں گی،،
میں اب دھوکہ نہیں کھاوں گی،،
تیری معصوميت پہ نہیں جاوں گی،،
میں نظر تم سے نہیں ملاوں گی،،
نہ جرم ِعشق کی سزا میں جھلوں گی،،
زخم دل کو اب نہیں لگاوں گی،،
تمیہں دعاوں سے میں پاوں گی،،
میں تقدیر سے لڑ
جاوں گی،،
"Kinza
Afzal Gondal
***********
No comments:
Post a Comment