پوچھا صدف تو آنکھ جھکا کر دکھا دیا
پوچھا گوہر تو اشک بہا کر دکھا دیا
پوچھا کہ اتنے پھول بہاروں میں کس طرح
اس نے عدیم خود کو ہنسا کر دکھا دیا
پوچھا کہ شب کو چاند نکلتا ہے کس طرح
رخ سے نقاب اس نے ہٹا کر دکھا دیا
پوچھا کہ آفتاب کو چھاؤں کبھی ملی
بالوں کو اس نے رخ پہ گرا کر دکھا دیا
پوچھا کہاں سے آئی دھنک آسمان پر
آنچل ہوا میں اس اڑا کر دکھا دیا
پوچھا کے حوض شب میں کیا غسل نور بھی
تب اس نے چاندنی میں نہا کر دکھا دیا
پوچھا کہ مجھ کو وعدہ شکن کہہ دیا ہے کیوں
اس نے عدیم خط میرا لا کر دکھا دیا
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment