محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں
جو دل گلاب ہیں زخموں سے بھر نہ جائیں کہیں
ابھی تو وعدہ و پیماں اور یہ حال اپنا
وصال ہوتو خوشی سے ہی مر نہ جائیں کہیں
یہ رنگ چہرے کے اور خواب اپنی آنکھوں کے
ہوا چلے کوئی ایسی بکھر نہ جائیں کہیں
جھلک رہا ہے جن آنکھوں سے اب وجود مرا
یہ آنکھیں ہائے یہ آنکھیں مکر نہ جائیں کہیں
پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں
نڈھال اہلِ طرب ہیں کہ اہلِ گلشن کے
بجھے بجھے سے یہ چہرے سنور نہ جائیں کہیں
فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر
نکل کے گھر سے اب اہلِ نظر نہ جائیں کہیں
No comments:
Post a Comment