مت بول پیا کے لہجے میں (مکمل نظم)
-
اے شام
مجھے برباد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے شام
عجیب سی ویرانی
مرے سینے میں آباد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے شام
کئی سو صدیوں کے
قیدی بیچارے اشکوں کو
مری آنکھوں سے آزاد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں
اے وقت
تو ایسا کام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے وقت
پرائی دنیا میں
مرے ہر سُو ہجر کی شام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے وقت
زمانہ ظالم ہے
تو بیچ ہر اک چوراہے کے
مرے پیا کو یوں بدنام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رات نگر ویران نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رات
سکوت ہے پہلے ہی
اس دل۔۔۔ زخموں کے دریا میں
اب اور اسے سنسان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رات
میں دکھ کا مارا ہوں
کوئی وصل وصال بشارت دے
یہ ہجر مرا ایمان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
کوئی نور کرن
کوئی دیپ جلا
مجھے پیا کی اپنی رس کی بھری
میٹھی دلدار آواز سنا
مرا یوں تاریک جہان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں
اے بادِ صبا
خاموش گزر جا باغوں سے
مت بول پیا کے لہجے میں
ہمیں خوف آتا ہے داغوں سے
اے نیل گگن
تری وسعت وصف سہی تیرا
میں پنچھی، بادل، سیّارہ، پورن ماشی
میں بچھڑے یار کا متلاشی
اے نیل گگن
ترے قریہ قریہ اڑنا مرا دیوانہ پن
مت بول پیا کے لہجے میں
اے کہکشاں
تری چمک دمک
مرے پیا کی لانبی پلکوں کی بس ایک جھلک
بس ایک جھلک مرے پیا کے نوری ماتھے کی
مرے دل کو کچھ کچھ ہو جاتا ہے فوراً ہی
مجھے تری صدا ہی کافی ہے
مت بول پیا کے لہجے میں
بے چین ہوا
مت چھُو مجھ کو
مرے زخم نہ کھلنے لگ جائیں
میں جن باتوں کو بھول چکا
اور چھوڑ چکا ہوں مدت سے
آآ کے نہ ملنے لگ جائیں
بے چین ہوا
مت بول پیا کے لہجے میں
مرے کان نہ جلنے لگ جائیں
مرے ہونٹ نہ سلنے لگ جائیں
بے چین ہوا
مت دیکھ مجھے
مت دیکھ مجھے کسی نابینا کی نظروں سے
مرے ہونے پر یوں ظلم نہ ڈھا
بے چین ہوا
بے چین ہوا
اُسے یاد نہ کر
اُسے دھیرے دھیرے یاد نہ کر
وہ یاد آیا
تو آنکھیں اپنی آئی پر آجائیں گی
پھر دریا کے دھاروں کی طرح
جانے کب تک نیر بہائیں گی
بے چین ہوا
نیندیں نہ اُڑا
مرے جیون جوگ کو جوگ سمجھ
بے چین ہوا مرا سوگ منا
مرے دل کے روگ کو روگ سمجھ
میں پہلے ہی بے کل ہوں بہت
پانی سے بھرا بادل ہوں بہت
اور رونے میں جل تھل ہوں بہت
بے چین ہوا
بے چین ہوا
مرے پاس نہ آ
مرا دل نہ جلا
مت بول پیا کے لہجے میں
بے چین ہوا
مت چھیڑ مجھے
مرے ساتھ عجیب فریب نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
میں شہر میں جتنا تنہا ہوں
اتنا ہی رہنے دے مجھ کو
مری غم کے سفر سے جان چھڑا
یہ سفر مری پازیب نہ کر
بے چین ہوا
مجھے چھینٹے مار نہ بارش کے
مجھے اتنا رمز شناس نہ کر
میں ہوں تو مجھ ہی کو رہنے دے
مری آس امید اُداس نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رُت مستانی
ظلم نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مری روح کا سارا بنجر پن
مری ویرانی
کہاں انجانی ہے پیا کی ہجر کہانی سے
میں کس کے دوارے جا بیٹھوں
میں کس سے پوچھوں اس کا پتہ
اے رُت مستانی
پیا بنا ہے ساری دنیا بیگانی
مت بول پیا کے لہجے میں
مرے جذبوں کو مہمیز نہ کر
احساس کو اور بھی تیز نہ کر
مرے غم کی فصلوں کے کارن
دِل کی مٹی زرخیز نہ کر
مرے پاس نشانی یہی تو ہے
آواز اُداس ہواؤں کی
مری لُوں لُوں نے ہے پہچانی
مت بول پیا کے لہجے میں
-
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment