وقت گزر جائیگا ایسے
کبھی نا ہم نے سوچا تھا
وہ کیسے ہم ہنستے تھے
اور ہنستے ہوئے کہتے تھے
یہ پل کبھی نا بھولینگے
یہ دوستی کبھی نا توڑینگے
پڑھائی کرنے آتے تھے
مستی کرکے جانے تھے
وہ دن کبھی نا بھولینگے
وہ باتیں کبھی نا بھولینگے
خاموشی کہ اس ماحول میں
کچھ ایسا شوشا کرتے تھے
روتا ہوا بھی ہنس پڑے
کچھ ایسی باتیں کرتے تھے
سب کامزاق اڑاتے تھے
سب کی باتیں بناتے تھے
کچھ نا کسی کی سنتے تھے
بس اپنی ہی سناتے تھے
ٹیسٹ یاد نا ہوتا تو کہتے
”ﷲ کرے آج سر نا آئیں،
ﷲ کرے آج چھٹی ہو جائے“
اب ہم ایسا سوچتے ہیں
کہ کیوں ہم ایسا کہتے تھے
فارغ جب بھی بیٹھتے تھے
فالتو باتیں کرتے تھے
ہم جیسا کوئی عقلمند نہیں
پڑھاکو ایسے بنتے تھے
جیسے کبھی کھائی ہی نا ہو
بریانی پر ایسے مرتے تھے
برسوں بعد ملے ہوں جیسے
روز ایسے ملتے تھے
ایسے جدا ہوجائیں گے سب
کبھی نا ہم نے سوچا تھا
چلیں جائینگے اک دن وہاں سے
جہاں ہیرو بن کر پھرتے تھے
نہیں ملیں گے پھر کبھی ایسے
جیسے روز ملتے تھے
وقت گزر جائیگا ایسے
کبھی نا ہم نے سوچا تھا
از قلم: منزہ قیوم
کبھی نا ہم نے سوچا تھا
وہ کیسے ہم ہنستے تھے
اور ہنستے ہوئے کہتے تھے
یہ پل کبھی نا بھولینگے
یہ دوستی کبھی نا توڑینگے
پڑھائی کرنے آتے تھے
مستی کرکے جانے تھے
وہ دن کبھی نا بھولینگے
وہ باتیں کبھی نا بھولینگے
خاموشی کہ اس ماحول میں
کچھ ایسا شوشا کرتے تھے
روتا ہوا بھی ہنس پڑے
کچھ ایسی باتیں کرتے تھے
سب کامزاق اڑاتے تھے
سب کی باتیں بناتے تھے
کچھ نا کسی کی سنتے تھے
بس اپنی ہی سناتے تھے
ٹیسٹ یاد نا ہوتا تو کہتے
”ﷲ کرے آج سر نا آئیں،
ﷲ کرے آج چھٹی ہو جائے“
اب ہم ایسا سوچتے ہیں
کہ کیوں ہم ایسا کہتے تھے
فارغ جب بھی بیٹھتے تھے
فالتو باتیں کرتے تھے
ہم جیسا کوئی عقلمند نہیں
پڑھاکو ایسے بنتے تھے
جیسے کبھی کھائی ہی نا ہو
بریانی پر ایسے مرتے تھے
برسوں بعد ملے ہوں جیسے
روز ایسے ملتے تھے
ایسے جدا ہوجائیں گے سب
کبھی نا ہم نے سوچا تھا
چلیں جائینگے اک دن وہاں سے
جہاں ہیرو بن کر پھرتے تھے
نہیں ملیں گے پھر کبھی ایسے
جیسے روز ملتے تھے
وقت گزر جائیگا ایسے
کبھی نا ہم نے سوچا تھا
از قلم: منزہ قیوم