وصل کی برسات
کتنا
الجھاؤ تھا اس کی ذات میں
تبی
چپ رہے ہم اس دشت کی رات میں
دو
بول میٹھے میں اس سے کیسے بولتی
شعلے
سے ٹپکتے تھے اس کی ہر بات میں
کیسے
اترتی میں اس کی اتاہ گہرائیوں میں
وہ
تو سمندر تھا اپنی ہی ذات میں
کتنا
تنا ہوا کھڑا تھا وہ اس شجر تلے
تبی
دور کھڑے بھیگتے رہے ہم اس
وصل
کی برسات میں
No comments:
Post a Comment