گر کہ رک
جاتے تم ، ذرا دیر کی تو بات تھی
بہل جاتا
یہ دل ، ذرا دیر کی تو بات تھی
آس لگ کر بیٹھے تھے تیرے در پر ہم
گر آس ہماری
نبھا جاتے ، ذرا دیر کی تو بات تھی
وہ پل آیا
، رُ کا
اور گزر گیا
اُ س پل
میں اپنا بنا لیتے ، ذرا دیر کی تو بات تھی
بچھڑے لمحے
، حجر کی باتیں ، غم کی یادیں
جو اک مسکان
دے جاتے ، ذرا دیر کی تو بات تھی
ہم کو ہم سے
لے کر ، ہمیں ہی دے گئے
اگر جو اپنا بنا لیتے ، ذرا دیر کی تو بات تھی
ثناء اقبال خان
No comments:
Post a Comment