آزاد نظم
اےہوا ! اس کےکبھی شہر سے گزرو تو. ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اے ہوا ! اس کے
کبھی شہر سے گزرو تو
چپکے سے کہیں اس کے
کسی خواب کے ساحل پر
اس دل کی تڑپ اک
تصویر بنا آنا
دھیرے سے کہیں اس کے
دل کے آنگن میں
تم میری محبت کی
اک بیل ا گا آنا
اے ہوا ! اس کے
کبھی شہر سے گزرو تو
چپکے سے کہیں اس کے
لمس کے جادو کی
اک مے چرا لانا
ان جاگتی آنکھوں کو
میری جاگتی راتوں کا
کوئی عکس دکھا آنا
یہ سب جو نہیں ممکن
تو اے ہوا !اس کے
کبھی شہر سے گزرو تو
بس اتنا کہہ دینا
دن بھرکی تپش جب اک
شام کو ڈھونڈ ے تو
جب شام کی پرچھائیں
کسی چاند کوڈھونڈے تو
جب چاند کی تنہائی
بے کل سی گھومے تو
اس وقت مجھے پھر اب
۔ ۔ ۔ ۔ تم یاد نہیں آنا
شکیلہ سحر
Very Nice
ReplyDeleteSo beautiful
ReplyDeleteبہت خوب
ReplyDeleteGreat
ReplyDelete