عنوان:
کوئے جفا
عائشہ یٰسین
ہم
وہ چراغ ہیں
کہ
جن کی لو
بجھتی
ہی رہتی ہے،
کبھی
روشن نہیں ہوتی!!
ہم
وہ پتھر ہیں
کہ
جن کو
غصے
میں آکر
بے
وجہ ہی
کہیں
دور پانی میں
پھینک
دیا جاتا ہے!!
ہم
وہ ورق ہیں
جو
بےدھیانی میں
نظر
انداز
کر
دیئے جاتے ہیں!!
ہم
وہ اندھیرا ہیں
کہ
جس کا کوئی
سویرا
ہی نہیں!!
ہم
ریل گاڑی پر بیٹھے
وہ
مسافر ہیں کہ
جن
کی کوئی
منزل
ہی نہیں!!
وہ
مسافر جو فقط
منزل
کی امید سے
راستے
کھو بیٹھا ہے!!
کہ
ہمارے سینے میں تو
فقط
ایسی امیدیں دفن ہیں
جو
ٹوٹ جانی ہیں!!
کہ
ہم تو کسی
ویران
کھنڈر پر
لگے
ہوئے جالے ہیں!!
کہ
ہمیں تو!!
صدیوں
پرانی کتابوں میں
سوکھے
گلاب کی مانند
بند
ہی رہنا ہے!!
کہ
ہم تو وہ پرانی حویلی
میں
لگی ہوئی گھڑی ہیں
جو
صدیوں سے بند ہی پڑی ہے!!
وہ
گھڑی کہ جس کے سینے میں
دھڑکن
بند ہو چکی ہے!!
کہ
ہم وہ وقت ہیں،
جو
ٹھہرا ہی ہوا ہے،
آگے
بڑھ ہی نہیں رہا!!
کہ
ہم تو پرانی حویلیوں میں
لگے
ہوئے اس کیلنڈر
کی
مانند ہیں ،
کہ
جن کی تاریخ
صدیوں
پہلے کی
دیوار
پر ثبت
ہو
چکی ہے !!
کہ
ہم تو
اس
دیمک ذدہ گٹار
کی
مانند ہیں ،
کہ
جس کی تاریں
کسی
نے توڑ کر ،
ساز
کو بند کر دیا ہے!!
کہ
گر کوئی
اس
گٹار کو
بجانا
بھی چاہے تو
ایسی
آواز آتی ہے
جسے
کوئی بھی
سننا
نا چاہے!
ایسی
آواز
جو
فقط
اذیت
ہی
اذیت
ہو !!
کہ
ہم کینوس پر
گرے
ہوئے ان
رنگوں
کی مانند ہیں
کہ
جن کو کسی نے
پھیکا
کر دیا ہے!!
ہم
رنگوں کی مانند
نہیں
رہے!!
بلکہ
پھیکے پڑ چکے ہیں!!
کہ
ہمارے وجود کو،
ایسے
آسیب نے نوچ لیا ہے،
ایسے
درد زدہ آسیب نے،
کہ
جس کی قید سے نکلنا
ناممکن
ہو چکا ہے،
کہ
اس آسیب نے
ہمارے
پاؤں پر
ایسی
زنجیر جکڑ دی ہے ،
کہ
جس کو توڑنا
دشوار
ہو چکا ہے!!
کہ
اس آسیب نے ہمیں
ایسی
لپیٹ میں لیا ہے
کہ
کوئی پاس آنا بھی
گوارا
نہیں کرتا!!
بھلا
اتنی ہی
رائیگاں
سی شے کو،
پوچھتا
کون ہے؟
یاد
کون کرتا ہے؟
اگر
کسی کو تنہا کہیں
مل
بھی جائیں تو
بلاتا
کون ہے؟
کہ
لوگ بھی پاس آنے سے
اس
سبب ڈرتے ہیں
کہ
اس کے سیاہ بخت کہیں
ان
کو نا لپیٹ لیں۔
...
عائش
کے قلم سے
****************
So deep ayesh✨
ReplyDelete