میرے شہر کی فصیلوں پر
شور ہے اب نعروں کا
وہ نعرے جو کہ زینت ہیں
ہر ایک چوک چوراہے کی
اب سجتا یہاں پنڈال ہے
پنڈال بھی بیچ بازار میں
اور اونچے لمبے چبوترے پر
اب چیختا کوئی حکمران ہے
حکمران جو دعویٰ گر بھی ہے
قوم کی غلامی کا
دہراتا اک فرمان ہے
فرمان جو بہت پرانا ہے
مگر پھر الیکشن کا زمانہ ہے
وہ جو کرسی کا دیوانہ ہے
گزرے اقتدار کا فسانہ ہے
وہ لمبی تان کے سویا تھا
اور ووٹر ہر صبح رویا تھا
اب نیند اسی کی روٹھ گئی
کرسی جو ہے چھوٹ گئی
اب چاشنی گھولے لہجے میں
پھر سے آن موجود ہے وہ
غرض کا اشارہ ہے
اک مہر کاوہ مارا ہے
مہر جو کہ امرت ہے
اقتدار کے ایوانوں کا
کچا رستہ، گندا پانی
ثمر اس کے احسانوں کا
یہ جو دکھتا اب فقیر ہے
عاجز ناتواں حقیر ہے
جوش سے بھرپور یہ
لفظ جو ہے بول رہا
یاد کرو ذرا پچھلا برس
جب اسی سجے پنڈال کے بیچ
یونہی شدت سے بولا تھا
جب ہر سو الیکشن کا رولا تھا
ان لفظوں کے گواہ وہ لوگ
جو اب تم میں نہیں رہے
موت جن کو نگل گئی
حیاتی پل بھر میں بکھر گئی
کوئی اندھی گولی کا
نشانہ بن کے گزرا ہے
کوئی گمنام بستر پر
تڑپ تڑپ کر بکھرا ہے
تب نیند ان کو پیاری تھی
عیش سے ان کی یاری تھی
سڑک کنارے روتی ماں کی
جھولی چند سکوں کی سوالی تھی
تب یہ سب تھے سو رہے
دکھی لوگ تھے تب رو رہے
سوال میرا اب ہے یہ۔۔۔۔۔۔
کیوں میرا ووٹ تمھارا ہو؟؟؟؟
کون اپنے لفظوں کا رکھوالا
ہو؟؟؟
✍🏻
عفیفہ داؤد
****************
No comments:
Post a Comment