غزل
بہاروں کی خوشبو بکھر گئی
ہو جیسے
تا حد نظر بھی خبر گئی ہو جیسے
مہکتی ہوائیں یہ
پھولوں کی شبنم
گزر کے نسیم سحر گئی ہو جیسے
مگر دل کی حالت کا یہ حال اب بھی
خزاؤں کی زد میں ٹھہر گئی ہو جیسے
بھنور میں ہو جیسے بهنور کا کنارہ
طوفاں میں کشتی اتر گئی ہو
جیسے
نہیں آرزو اب ملے ساتھ کوئی
کہ چاہت کی چاہت تو مر گئی ہو جیسے
نہ خود کو ہی سمجھا نہ سمجھا
خدا کو
بے سمجھی میں ساری گزر گئی
ہو جیسے
چھوئے ذات میری بلندی کو اب
یوں
خودی کے سفر میں نکھر گئی
ہو جیسے
شکیلہ سحر
***************
غزل
ملو جو دل سے تو کیوں ملال
آئے
میری انکھوں میں کیوں سوال
آ ئے
انا کا بت ہی جو پہلی ترجیح ہو
کیوں تعلق میں
نہ زوال
آ ئے
میں نے سب کو پرکھ کے دیکھ لیا
خود سے ملنے کا اب خیال آ ئے
نہیں میرا کبھی کوئی دشمن تھا
میرے پیچھے میرے اعمال آ ئے
میں تو خود سے الجھ کے رہ گیا
میری سوچوں میں اتنے جال آئے
جب حاصل ہو اس کی خوشنودی
کب جا نے وہ ماہ
و سال آ ئے
دل میں عشق رسول ایسے ہو
روح کے اندر سے کوئی بلال
آ ئے
تم سے مل کر میں تم ہو جاؤں
کیوں نہ چاہت میں وہ کمال
آئے
قدم میرے نہ رک سکے ورنہ
لوگ رستے میں باکمال
آئے
شکیلہ سحر
***************
Very nice
ReplyDeleteبہت خوب
ReplyDeleteBohat khoob. 👌🏻♥️🦋
ReplyDeleteBohat alaa
ReplyDelete