"منظر"
پتھر
سے دل لگانا لیکن انسان سے بچ جانا،،
پتھر
سے لگے زخم سے خون رستا ہے،،
انسان
مگر سانپ بن کر ڈستا ہے،،
زہر
بن کر پیار جسم میں سما جاتا ہے،،
اس
زہر کا درد بڑا تڑپاتا ہے رولاتا ہے،،
سانپ
جب ڈستا ہے تو چھپ جاتا ہے،
پھر
کہا اک لمحہ بھی سکوں آتا ہے،،
کوئ
سانپ کا ڈسا کہاں سانسوں کی تاب لاتا ہے،،
جسم
میں اترے اس زہر سے کب زندہ بچ پاتا ہے،،
تڑپ
تڑپ کر سانسں چار لینی ہیں
درد
سے ہو کر چور آخر جان سے جاتا ہے،،
ہزارو
لاو طبیب یا پھر کرواتے پھرو تعویذ
اثر
اس زہر کا کبھی نہیں جاتا
نا کوئ اس درد روک پاتا ہے،،
تڑپ
کر نکلتی ہے جان بدن سے
اور
دنیا پھر چھوڑ جاتا ہے،،
"Kinza Afzal"
************
منظر
اس
نے سچ بول کر مجھے گوا دیا
میں
نے جھوٹ بول کر خود کو بچا لیا
وہ
سمجھا کہ ہے یقین اس نے مجھے دلا لیا
میں
سمجھی دھوکہ ہے اس سے میں نے کھا لیا
وہ
سمجھا کہ میں نے اسے دل میں ہے بسا لیا
میں
سمجھی کسی پتھر سے ہے زخم لگا لیا
مگر"
وہ کہتا ہے کہ تم نے مجھے کیوں
دغا دیا
میں
کہتی ہو تم نے بھی دل مجھ سے بہلا لیا
وہ
کہتا ہے میں نے سچ بول کر وفا کو ہے نبھا دیا
میں
کہتی ہوں تیری باتوں نے میرا تن من جلا دیا
وہ
کہتا ہے مجھے یہوں کیوں چھوڑا ہے؟
میں
کہتی ہو تم نے میرا بھروسہ کیوں توڑا ہے؟
پھر
کہتا ہے کیا تم نے مجھ پہ اعتبار کیا تھا؟
میں
کہتی ہوں کیا تم نے مجھ سے پیار کیا تھا؟
میرے
بدن سے لہو نچوڑ لیا تھا
یہ
کیسا تم نے اظہار کیا تھا
تم
نے سچ بول کر مجھے گوا دیا
میں
نے جھوٹ بول کر خود کو بچا لیا،،
"Kinza Afza"
************
"منظر "
وہ
ہی تھا منظر وہی تھا منتظر
نا
اہل ایمان تھا نا تھا کافر
مجھے
راستے سے اس نے بھٹکانا تھا
وہ
جو بنا تھا میرا ہمسفر
میں
سزا اسے کیا دے سکتی ہوں
بس
ایک بد دعا دے سکتی ہوں
نا
ملے تجھے کوئ منزل
نا
ہو تیرا کوئ ہمسفر
نا
تیرا کوئ ٹھکانہ ہو
نا
بند کمرے میں تجھے
آتا کسی کو بہکانہ ہو
یوں
ہی دربدر بھٹکتے رہو
جیسے
بٹھکا ہوا کوئ ہو مسافر
تجھے
عبرت کا نشاں بناۓ
خدا
کسی
دیوانے کی طرح تو بھاکتا رہے
تیرے
پیچھے ہاتھوں میں پتھر لیۓ
زمانہ ہو
تجھ
سے اٹھے اعتبار یوں دنیا کا
تو
اللہ اللہ کرتا رہے
مگر
لوگ تجھے کہیں کافر،،
"K.A"
*********
غزل
" دھوکہ باز یہ دنیا"
اب
کے جو ٹوٹا ہے بھروسہ عمر بھر نا کر سکوں،،
میری
زات کے ہوۓ
کئ ٹکڑے میں جی سکوں نا مر سکوں،،
مجھ
پہ ایسی برسائ گئ ظلم کی بارش،،
نا
آنکھوں سے انسوں برس سکیں
نا
لبوں سے میں مسکرا سکوں،،
اٹھا
ہے اعتبار جو کہ اب زمانے سے،،
کسی
حسن پرست سے نا دل لگا سکوں،،
یہ
لکھتے ہوۓ
آنکھوں سے خون برسنے لگا،،
دل
تڑپنے لگا ایسے میں کسی طرح نا بہلا سکوں،،
وحشت
ہوتی ہے اب اندھیری اس دنیا سے،،
نا
تنہائ میں جھل سکوں نا محفل میں جاسکوں،،
"kinza Afzal"
*************
خوف
دل
کرتا ہے ان درندوں سے خود کو چھپا لوں،،
موت
آۓ نا آۓ
زندہ قبر میں خود کو دفنا لوں،،
کہیں
نوچ نا لے کفن میں لپیٹا کوئ وجود میرا،،
نام
کی جگہ پتھر شناخت قبر پر لکھوا دؤں،،
کروں
جسم و جاں سپرد خدا کے میں،،
ربَ
العزت میں صرف تیری ہی پناہ لوں،،
دیکھ
سکے نا میلی نظر سے کوئ،،
شرافت
سے نا لوٹ لے مجھے کوئ،،
یا
ربَ مجھے دنیا کی غلاظت سے بچا لے
محفوظ
رکھ میری زات کو آپنی ہی پناہ دے،،
(آمین)
"Kinza Afzal"
***********
روح
پہ لگی ضرب"
خون
جسم سے نیچڑ گیا اس کی ایک ہی بات سے،،
ساری
زندگی کا بوجھ بھاری ناتھا دوستی کی ایک رات سے،،
وہ
اکثر لوگوں کی طرح منافق تھا،،
میرا
نادان دل اسکی فطرت سے غافل تھا،،
روگ
عشق کا تو لگا نہیں
مگر
جسم ٹھوکر سے بچا نہیں
روح
پہ لگی اس ضرب کو میں کس سے کہوں
بھری
اس دنیا میں کوئ دوست نہیں
میرا کوئ آپنا نہیں
کاش
کہ زندگی میں ایک یہ رات آئ نہ ہوتی
کہ
اس کی باتوں سے تنہائ مٹائ نہ ہوتی،،
کچا
تھا وہ اس راہ کا مسافر
نا
اہل ایمان تھا نا تھا کافر
تلا
تھا وہ مجھے بھی بھٹکانے کو
مگر
میں مکر گئ اس راہ پہ جانے کو
اگر
اس نے اوقات پہلے ہی بتائ نا ہوتی
تو
شاید کہ ہم میں کبھی جدائ نا ہوتی،،
چل
پڑتی شاید قدم بہ قدم ساتھ اس کے
اگر
دور سے ہی کانٹوں بھری منزل
اس نے دیکھائ نا ہوتی،،
کاش
کہ میری زندگی میں یہ رات آئ نہ ہوتی
تو
کچھ جھوٹی سچی حقیقت اسے سنائ نہ ہوتی،،
"Kinza Afzal"
*************
چاند
کی چاندنی ہو،،
سورج
کی روشنی ہو،،
یا
پھر کوئ دیا جلا ہو،،
میں
خود کو چھپا لیتی ہوں،،
مجھ
پہ کسی کی نظر نا ہو،،
کہ
مجھے کوئ دیکھ نا رہا ہو،،
میں
تھی کبھی بہادر بہت،،
کہ دینا سے نڈر تھی بہت،،
میں
کبھی بے خوف تھی،،
حوصلہ
مند بہت تھی،،
مگر"
لوگو
کو میں جانچنے لگی،،
پھر
تھر تھر میں کانپنے لگی،،
بھیڑیے
بستے ہیں دھاڑ کے صورت انسان کی،،
مجھ
معصوم کو کہاں دریندوں کی پہچان تھی،،
ہر
کسی پہ اعتبار کر بیٹھتی تھی،،
سمجھ کہ انسان پیار کر بیٹھتی تھی،،
کہ میں تو ہمیشہ مخلص تھی،،
دل
میں بھری ڈھیرو الفت تھی،،
مگر
دوھرے روپ سے انجان تھی،،
کیوں
کہ میں پاگل نادان تھی،،
"Kinza Afzal"
**********
آخر
غرور اب کہ میرا بھی ٹوٹ گیا
جو چہرا چھپایا
تھا نقاب میں
اس کا حسن کوئ
لوٹ گیا
اک لفظ کسی
نے بول دیا
میرا بھرسہ
سارا توڑ دیا
سمجھی تھی
ڈوبتی کو
ملا ہے
تنکے کا سہارا
میرا سارا
وجود ایک
دلدل میں
ڈوب گیا
ساری قسمیں دھری
رہی
خود سے کیا وعدہ
ٹوٹ گیا
سہارا ملا ہی کب
تھا کسی کا
کہ میں آنسوں
بہاوں
ہاتھ اس سے میرا
چھوٹ گیا
"Kinza Afzal"
**************
No comments:
Post a Comment