کہنے
کو پاس ایک دنیا ہے
نظر
نظر رعنائی ہے
ہر
دل ایک بہتا دریا ہے
ہر
آنکھ جیسے شیدائی ہے
میرے
پاس ایک گھنا ہجوم سا ہے
اور
ہجوم سے گھنی تنہائی ہے
ایسا
کیا ہے جو جان کو کھاتا ہے
میں
کچھ اور ہوں مجھے بتاتا ہے
جو
ہر سمندر چہرے میں
مجھے
ایک پیاسے کا عکس دکھاتا ہے
کچھ
ہے جو کشن کے پیروں کو
رادھا
کی اور بہکاتا ہے
کیا
لکھوں اور کیا جانے دوں
یا
اُن نینوں کی ندیا میں
آب
خود کو بہہ ہی جانے دوں
وہ
ایک ٹھہرا سا لمحہ میں
اب
خود کو بھول بھی جانے دوں
عین
ممکن ہے بھول بھی جاؤں میں
پھر
سوچنے کے خود کو بہانے دوں
یہ
سب اب خواب سا لگتا ہے
ایک
کڑوا جواب سا لگتا ہے
یہ
گناہ ہے تو پھر گناہ لگے
کیوں
اجر،ثواب سا لگتا ہے
دن
ہے اور رات سی لگتی ہے
سب
کل کی بات سی لگتی ہے
گہرے
گہرے ساگر میں
پھر
ایک برسات سی لگتی ہے
پاس
ایک گھنا ہجوم سا ہے اور
اس
سے بھی گھنی تنہائی ہے
آنکھ
کے سب کچھ پڑھتی ہے
دل
کہ مجسم بینائی ہے
عظمٰی
خان
No comments:
Post a Comment