عنوان:
لفظوں کا زندان
عائشہ یٰسین
نا
جانے کتنی حسرتیں
میرے
دل کے کمرے میں
پوری
ہونے کی چاہ میں
مر
رہی ہیں،
نا
جانے کتنی امیدیں
جو
تم سے وابستہ ہیں
دل
چور ہو جانے کے ڈر سے
ٹوٹ
رہی ہیں،
نا
جانے کتنے خواب
نا
پورے ہو جانے کے خوف سے
ٹوٹ
رہے ہیں،
نا
جانے کتنی مسکراہٹیں
سب
میں بکھیر کر
خود
پر روز ہنستی ہوں،
نا
جانے کتنی خواہشات
جو
میرے دل میں ہیں
مجھ
پر ہنستے ہنستے
ٹوٹتی
جاتی ہیں،
نا
جانے میرا دل
مجھے
مارنے کی چاہ میں
طرح
طرح کی ترکیبیں کیوں سوچتا ہے،
نا
جانے کیوں دل پر
عجب
سا اک بوجھ ہے۔۔
جو
پل پل دل کو پتھر
بنائے
رکھتا ہے،
نا
جانے کیوں دل
عجب
سی خلش سے دوچار ہے،
نا
جانے کیوں ماتھے پر
شکن
رہتی ہے،
نا
جانے کیوں
خود
کو خوش رکھنے کی کوشش میں
آنکھیں
بھیگ جاتی ہیں،
نا
جانے کیوں دل میرا
اذیت
سے بھر گیا ہے،
نا
جانے کیوں خود کو خود کی
خواہشیں
ٹوٹ جانے پر
ہنسی
آتی ہے،
خواب،
خواہشیں، مسکراہٹ سب
دور
بیٹھے تنہا مجھے دیکھ کر
قہقے
لگا رہے ہیں!
روح
اب مٹی میں جانے کی خواہش مانگتی ہے
اور
خواہش مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔۔
ہائے خواہش 💔
ReplyDelete🖤🍂
DeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDelete