تیرے فراق میں گن گن کے گنوائے ہیں جو میں نے،
وہ قیمتی اوقات ہو۔
تیرے ہجر میں معلوم نہ ہو مجھ کو اور پھر دن
سے رات ہو۔
تجھ کو پانے کی التجا میں میرا وجود ہوا ہے
دھول ۔
پھر خواب میں بھی میسر مجھے تیری دھندلی ملاقات
ہو۔
ستائش ہے میری کہ ہو تجھ سے کوئی ایسی بھول۔
کہ مسکرائے تو اور پھر مجھ سے غموں کی نجات
ہو۔
تیرے ہجر کے سوگ میں زندگی کٹتی جائے اور۔
پھر تجھ پھول کی ایک جھلک ہی میری موت کی سوغات
ہو۔
محفلِ حسن ہو اور لُطفِ عشق کی بات ہو۔
پھر اِس راہِ دشت میں فلزہ، تباہی ذکر پہ میری
ذات ہو۔
شاعرہ: فلزہ گُل
**********
No comments:
Post a Comment