تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کتنا سہل جانا تھا
خوشبوؤں کو چھو لینا
بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر
گھر میں قید کر لینا
روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا
کتنا سہل جانا تھا
خوشبوؤں کو چھو لینا
جگنوؤں کی باتوں سے پھول جیسے آنگن میں
روشنی سی کرلینا
اس کی یاد کا چہرہ خوابناک آنکھوں کی
جھیل کے گلابوں پر دیر تک سجا رکھنا
کتنا سہل جانا تھا
اے نظر کی خوش فہمی ! اس طرح نہیں ہوتا
تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے
ابل رھا ھے دکھوں کا لاوا
رہین آتش ھیں خواب میرے
خیال سارے جھلس گۓ ھیں
سلگتی خواھش ھیں خواب میرے
اکھڑکتی سانسیں ھیں ذندگی کی
لہو کی ساذش ھیں خواب میرے
جو میری آنکھوں سے خواب دیکھو . . .
تو ایک شب بھی نہ سو سکو گے
No comments:
Post a Comment