مارچ کی دھوپ اب بھی
راہداریوں کی سیڑھیوں پر بکھری ہوئی ہے
ان گنت پھولوں کی خوشبو
اب بھی ہوا کے ساتھ بہتی ہے
مجھے پاگل بناتی ہے
کوریڈور کے سرمئ فرش پر گلابی آنچلوں کے عکس ابھی تک جھلملاتے ہیں
برآمدے کے ستوں، میری طرح چپ چاپ سے تنہا کھڑے ہیں
رسیلے شہوتوتوں کی شاخیں روش پر ویسے جھکی ہیں
"ساتویں" اور "دسویں" گھنٹی اب بھی مجھے بے چین کرتی ہے
کلاس روم کا شور اب بھی ویسا ہے
مگر بنچوں کی قطاروں کا وہ "پہلا بینچ" خالی ہے
بہت ترش لیموءوں کا پیڑ، باغیچے کے کونے میں اداس کھڑا ہے
تمہارے اور میرے نام کے پہلے حرف اب بھی اسی جامن کے چوڑے تنے پر کھدے ہیں
دنیا کی سب سے tasty coke میز پر یونہی پڑی ہے
چھالیے کا پیکٹ بھی کھلا پڑا ہے
میری کتاب کے پہلے صفحے پرتمہارے قلم سے لکھا ہوا شعر اب بھی ویسا ہے
تمہاری توڑی ہوئی کلیاں،ویسے رکھی ہیں
مرجھائی نہیں
کہ ان پر تمہارا لمس تازہ ہے
میرے شہر کا موسم بھی ویسا ہے
تمہارا نام لیتا یہ دل بھی ویسا ہے
میری پلکوں پہ گزرے موسموں کی گرد جمتی جارہی ہے
ہر اک شے تمہاری راہ تکتی تھک رہی ہے
"لوٹ آءو"
A.H.Yaqeen
No comments:
Post a Comment