یاد رکھ خود کو مٹائے گا تو چھا جائے گا
عشق میں عجز ملائے گا تو چھا جائے گا
اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ
تو میرے شہر میں آئے گا تو چھاجائے گا
قیامت بھی اٹھا دینگے تو کوئی فرق نہیں
تو فقط آنکھ اٹھائے گا تو چھا جائے گا
پھول تو پھول ہیں وہ شخص اگر کانٹے بھی
اپنے بالوں میں سجائے گا تو چھا جائے گا
یوں تو ہر رنگ ہی سجتا ہے برابر تجھ پر
سرخ پوشاک میں آئے گا تو چھا جائے گا
پنکھڑی ہونٹ، مدھر لہجہ اور آواز اداس
یار تو شعر سنائے گا تو چھا جائے گا
جبر والوں کی حکومت ہے فقط چند ہی روز
صبر میدان میں آۓ گا تو چھا جائے گا
No comments:
Post a Comment