یاد ہے تم کو
اک لڑکی تھی سیدھی سادی
اپنے آپ میں رہنے والی
عشق محبت اور جنوں کو
محض حماقت کہنے والی
ہر اک دکھ کو چپکے چپکے
اپنے دل پہ سہنے والی
یاد ہے تم کو
اس نے تم سے پیار کیا تھا
اپنی خوشیاں‘ دل اور جیون
سب کچھ تم پر وا ردیا تھا
اس کی آنکھوں میں کھو کر تم
اپناآپ بھلا بیٹھے تھے
چین سکون گنوابیٹھے تھے
یاد ہے تم کو اس لڑکی نے
ہنس کر ہر اک زخم سہا تھا
کبھی نہ تم سے گلہ کیا تھا
پھر بھی تم نے
لوگوں کی باتوں میں آکر
اس کے دل کو توڑ دیا تھا
عشق کی منزل پر لانے سے پہلے اس کو چھوڑ دیا تھا
یاد ہے تم کو بچھڑکے تم سے
وہ لڑکی پھر بکھر گئی تھی
دنیا والے ایک طرف وہ اپنے آپ سے بچھڑ گئی تھی
اب تم کووہ یاد آتی ہے
تنہائی میں تڑپاتی ہے
لیکن جاناں
اب پچھتانے سے کیا حاصل
اب وہ موسم گزر گیا ہے
دل کا گلشن اجڑ گیا ہے
اور چاہت کا دل کش موسم دستک دے کر
خالی ہاتھ گزر جائے تو دل بھی خالی رہ جاتے ہیں
سچے پیار کو کھونے والے
اکثر یوں ہی پچھتاتے ہیں
. . .خود بھی خالی رہ جاتے ہیں
No comments:
Post a Comment