سبکے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیںباتیں میری
میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے
اک جنازہ اُٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر تھے جو ہر دور میں بھاری نکلے
عکس کوئی ہو خدوخال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسن
میرے قاتل تو میرے اپنے حواری نکلے
No comments:
Post a Comment