اے مَحبّت
تُو جنوں خیز اثر سے اپنے
میری ہستی کے بکھرتے ہوئے شِیرازے کو
مسخ ہونے سے بچانے کے لئے پاس نہ آ
تیرے ہم راہ کئی رنگ تو کچھ سنگ بھی ہیں
جن کی بارش سے لرزتے ہیں شکستہ آنگن
بے سکونی کا پتا دیتی ہے تیری قربت
اے مَحبّت !
یہ جنوں خیز اثر کی وَحشت
میری رگ رگ میں اتر آئی ہے
آنکھ چوکھٹ پہ جما بیٹھا ہے لمحہ کوئی
اور اس لمحے کی تعبیر میں رسوائی ہے
اے مَحبّت ! میں ترے درد کی وسعت لے کر
تیرے اَسرار کی چوکھٹ پہ چلی آئی ہوں
دل کی دہلیز پہ قبضہ ہے اسی لمحے کا
میں ترے دردسے رخصت کی تمنّائی ہوں
No comments:
Post a Comment