میں جب بھی اس سے کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ
بتاؤ نا! کہ کتنی ہے؟
میں بازو کھول کر کہتی ہوں کہ
زمیں سے آسماں تک ہے
فلک کی کہکشاں تک ہے
میرے دل سے تیرے دل تک
مکاں سے لا مکاں تک ہے
وہ کہتا ھے، کہ بس اتنی!!!
میں کہتی ھوں
یہ بہتی ھے
لہو کی تیز حدت میں
میرے جذبوں کی شدت میں
تیرے امکاں کی حسرت کی
میرے وجداں کی جدت میں
وہ کہتا ہے
نہیں کافی ابھی تک یہ
میں کہتی ہوں
ہوا کی سرسراہٹ ہے
تیرے قدموں کی آھٹ ہے
کسی شب کے کسی پل میں
مجسم کھنکھناہٹ ہے
وہ کہتا ہے
یہ کیسے (محسوس) ہوتی ھے؟؟
میں کہتی ہوں
چمکتی دھوپ کی مانند
بلوریں سوت کی مانند
صبح کی شبنمی رت میں
لہکتی کوک کی مانند
وہ کہتا ھے
مجھے بہکاوے دیتی ہو؟
مجھے سچ سچ بتاؤ نا
مجے تم چاھتی بھی ہو
یا بس بہلاوے دیتی ہو؟
میں کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
کہ جیسے پنچھی پر کھولے
ہوا کے دوش پر جھولے
کہ جیسے برف پگھلے اور
جیسے موتیا پھولے
وہ کہتا ھے
مجھےالو بناتی ہو
مجھے اتنا کیوں چاہتی ھو؟
میں اس سے پوچھتی ہوں اب
تمھیں مجھ سے محبت ہے؟
بتاؤ نا کہ، کتنی ہے
وہ بازو کھول کے
مجھ سے لپٹ کے
جھوم جاتا ہے
میری آنکھوں کو کر کے بند
مجھ کو چوم جاتا ھے
دکھا کے مجھ کو وہ چٹکی
دھیرے سے مسکراتا ھے
میرے کانوں میں کہتا ھے
فقط اتنی...
No comments:
Post a Comment