آنکھوں کو اتنا رگڑا میں نے
کہ ایک دریا بہادیا میں نے
طوفان کو میں نے کنارے لگایا
یاد سے اپنا دامن چھڑایا
بہا دیئے غم سارے دنیا کے
امید کا ایک دیا جلایا میں نے
خوشی کو روشن کیا میں نے
شبنم کو پلکوں پر بسایا میں نے
بھلا دیا دنیا کی ستم ظرفی کو
اپنا دامن چھڑایا میں نے
چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں میں نے
اپنی پیشی کرائی میں نے
سب بھلا دیا آخر میں نے
منتظر ہے ایک نیا سفر میرے
دنیا کو اپنی سنوار میں نے
جہاں میں دیا جلایا میں نے
از قلم دانیہ شاکر
No comments:
Post a Comment