میں
سگریٹ کیوں پیتا ہوں
میں
سگریٹ تب پیتا ہوں۔
جب
بہت اداس ہوتا ہوں
جب
تنہا ہوتا ہوں
جب
پریشان ہوتا ہوں
جب
اسکی یاد آتی ہے
تنہائی
غالب آتی ہے
مایوسی
چھانے لگتی ہے
پتہ
نہیں کیوں۔۔۔۔۔۔۔
اتنا
بے بس ہوتا ہوں
سگریٹ
پینے لگتا ہوں
معلوم
ہے مجھے نقصان اسکا
برائی
بھی جانتا ہوں میں
پھر
بھی اسکا انتخاب کرتا ہوں
اس
کو ہی اپناتا ہوں
لبوں
پہ سجاتا ہوں
دل
کو جلاتا ہوں
یادوں
کو بھلاتا ہوں
لیکن
یہ ناکام کوشش ہے
یہ
بربادی ہے
تباہی
ہے
بچنا
چاہتا ہوں میں
چھوڑنا
چاھتا ہوں میں
جسے
زندگی سمجھا تھا میں
موت
بن رہی ہے یہ
زندگی
توڑ رہی ہے یہ
بس
اب نہیں ہو گی
یہ
بربادی اب نہیں ہوگی
سگریٹ
چھوڑ دوں گا میں
ناطہ
توڑ لوں گا میں۔
فخر
صابری
No comments:
Post a Comment