اک روز شام زندگی سے بیگانی لگی۔
شام کے اس پہر میں لمحوں کی اس فرصت میں۔
جب جینے کی تمنا جب فقط لفظوں میں تھی۔
جب اُسے شام ڈھلتے سورج کی کرنوں میں دیکھا۔ جب اس ڈھلتی کرنوں کی روشنی میں میں نے خود کوکمزورپایا۔
تو اسی لمحے مجھے خیال آیا۔ تو کئ سال پہلے مر چکی تھی۔
تو پھر تجھے جینے کا خیال کیسے آیا۔
تیرے پاس سوالوں کے ڈھیر تھے۔
فقط کوئی جواب نہ تھا۔
تیری سانس تو چل رہی تھی مگر تیرے جسم میں روح نہ تھی۔
تیری روح کو تیرے جسم کی پروا نہ تھی۔
تو چاہتی تو جی لیتی اپنی زندگی۔
مگر تجھے دوسروں کو روندنے کی عادت نہ تھی۔
تونے زمانے میں قدم تو رکھا تھا مگر زمانے سے بیگانی تھی۔
تجھے زمانے کو پڑھنے کا ڈھنگ نہ تھا اسی لیے۔
اک روز وہ شام تجھے زندگی سے بیگانی لگی۔
شام کے اس پہر میں لمحوں کی اس فرصت میں۔
No comments:
Post a Comment