اپنی محرومہ استانی غزالہ یاسمین کے لیے)
جہاں ہم ملا کرتے تھے
وہاں جانا میں نے چھوڑ دیا
جس بے تابی سے تو دیکھ کے گلے لگتی تھی
اور خوشی تیری باتوں سے چھلکتی تھی
اب ان آنکھوں میں وہ تاب نہیں
کہ
تجھے وہاں نہ پا کر جو میرے دل پہ بیتے گی
وہ بیان نہیں میرے پاس
تجھے یاد کرتے ہوئے ان آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں
اور اس رات خواب میں تو مجھے گلے لگا کے ملتی ہے
مجھکو وہ پل حقیقت لگنے لگتے ہیں
(وفا)
وہاں جانا میں نے چھوڑ دیا
جس بے تابی سے تو دیکھ کے گلے لگتی تھی
اور خوشی تیری باتوں سے چھلکتی تھی
اب ان آنکھوں میں وہ تاب نہیں
کہ
تجھے وہاں نہ پا کر جو میرے دل پہ بیتے گی
وہ بیان نہیں میرے پاس
تجھے یاد کرتے ہوئے ان آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں
اور اس رات خواب میں تو مجھے گلے لگا کے ملتی ہے
مجھکو وہ پل حقیقت لگنے لگتے ہیں
(وفا)
No comments:
Post a Comment