کدھر
دیکھنا تھا کدھر دیکھتے ہیں
یہ
راہی لحد کے سحر دیکھتے ہیں
اُنھیں
آنکھ اٹھا کر اگر دیکھتے ہیں
تو
کہتے ہیں فوراً کدھر دیکھتے ہیں ؟
مریضِ
غمِ ہجر کی موت بہتر
مگر
یہ کہاں چارہ گر دیکھتے ہیں
ملیں
خواب میں مجھ سے موسیٰ تو پوچھوں
تجلی
کا اب بھی اثر دیکھتے ہیں ؟
نہیں
تیرے در پر سوالی جو بنتے
بھٹکتا
اُنھیں دربدر دیکھتے ہیں
کہاں
تک کوئی اپنے دل کو سنبھالے
جو
ہم سے ہو سکتا تھا کر دیکھتے ہیں
ہمیشہ
جہنم کے ڈر سے کیے ہیں
محبت
کے سجدے بھی کر دیکھتے ہیں
اُنھیں
ہے غرض اپنے ظُلم و ستم سے
کہاں
میرا زخمِ جگر دیکھتے ہیں
گزرتے نہیں ہیں یہ کچھ دن بھی ہم سے
یہاں
لوگ عمرِ خضر دیکھتے ہیں
تحسین
علی نقوی
No comments:
Post a Comment