غزل
تم یادآئے
از ثناءاقبال خان
ہوئی جو
آنکھ نم ، تم یادآئے
رکھا جو
ہاتھ دل پر ،تم یادآئے
کی تھی
دل نے فریاد جب تم سے ملنے کی
یاد آیا
وہ جو حجر کا لمحہ ،تم یادآئے
ملتے ہیں
لوگوں سے دلِ شاداں ہو کر
بیٹھے جو
تنہائی میں ،تم یادآئے
خود سے
خود کو جدا کر کے خودی میں بیٹھے ہیں
دیکھا جو
خود کو اک بار ،تم یادآئے
بڑے مان
سے کہا تھا گزار لے گے ہجر کی راتيں
اب وہ مان
بھی ٹوٹا تو ،تم یادآئے
ثناءاقبال
خان
No comments:
Post a Comment