حساب
لینے لگے وہ بُلا کے رستے میں
کیا
زلیل مُجھے یوں بٹھا کے رستے میں
مرے
رفیق سبھی خوش ہیں یوں کہ میں جانوں
مجھے
ہی خار ملے ہیں وفا کے رستے میں
شراب
چھوڑ کے تُو راہِ حق پہ چل کے تو دیکھ
دعائیں
دیں گے فرشتے بھی آ کے رستے میں
کہاں
سلام جوابِ سلام تک نہ دیا
گزر
گئے وہ مرا دل جلا کے رستے میں
میں
وہ ہوں جسکو ہر اک شخص ہی بُرا جانے
کوئی
مُجھے نہ مِلا مُسکرا کے رستے میں
کہا
بھی میں نے چلیں گھر ہے پاس میں ہی مرا
وہ
بس کھڑے ہی رہے منہ بنا کے رستے میں
تحسین
علی نقوی
No comments:
Post a Comment