غزل
چھوڑو
محبت کے قصے، وفا کی لاج کو
یہ
کب بدل جاۓ
خود ساختہ انا میں
تم
وفا کی بات کرتے ہو محبت کو نبھانے کی
ہم
نے تو سر پیکر محبت کو مکرتے دیکھا ہے
وہ
جو جاں جاں کہہ کر پکارتے تھے
ایسی
محبت کو بے نشاں ہوتے دیکھا ہے
کبھی
ریت کے زروں کو ہوا میں اڑتے
یوں
بے وقعت ہوتے انسانوں کے جذبات کو دیکھا ہے
یہ
تو نصیبوں کی بات ہے جو آخری دم تک نبھاۓ
ورنہ
ہم نے تپتی دھوپ میں بے سائبان ہوتے دیکھا ہے
کبھی
وقت ملا تو بتاۓ
گۓ
ان کے قصے
جنھیں
وفا کی راہ میں بے وفا ہوتے دیکھا ہے
شاعرہ:
اقراء گل ناز
No comments:
Post a Comment