بچپن
میں سپنے دیکھے تھے
سپنے
وہ اپنے لگتے تھے
بن
کر میں راجکماری
کی
ہے سب نے حکم کی تیاری
ہر
طرف باغ دیکھے تھے
سپنوں
کے راج دیکھے تھے
اک
دن میں نے لی انگڑائ
تخیل
سے میں باہر آئ
سپنے
ٹوٹے خوب چلائ
پر
مجھے یہ بات سمجھ میں آئ
حقیقت
کی دنیا میں تم آؤ
اس
کو سمجھو کچھ بن جاؤ
جو
نہ سمجھی وہ سمجھ میں آیا
دنیا
نے مجھ کو حقیقت سے ملایا
شکر
ہے ناداں کو سمجھ میں آئ
حقیقت
سے یوں ہوئ روشنائ
ردا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نہ
جانے کیوں یاد آتے ہو
لمحہ
لمحہ تڑپاتے ہو
رم
جھم میری برساتے ہو
نہ
جانے کیوں یاد آتے ہو
بہت
بھلایا تم کو
خود
سے چھپایا تم کو
کتنا
تم ستاتےہو
نہ
جانے کیوں یاد آتے ہو
میری
سوچو کا تم محور نہیں
تم
میری منزل نہیں
پھر
بھی خواباں میں آتے ہو
نہ
جانے کیوں یاد آتے
اشک
میں روانی نہیں
تم
میری کہانی نہیں
پھر
بھی مجھ کو رلاتے ہو
نہ
جانے کیوں یاد آتے ہو
تو
میری تقدیر نہیں
نہ
ہی میری تعبیر ہو
پھر
بھی نظر ہو
نہ
جانے کیوں یاد آتے ہو
از
قلم ردا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں
نےاک اناڑی دیکھی
اس
میں ایک بیماری دیکھی
دوسروں کو ہنستا دیکھ نہ پاۓ
اس
پروہ کبھی نہ پچھتاۓ
کسی
کی خوشی اس کو راس نہ آۓ
خوب
جھگڑے اور لڑاۓ
جب
کوئ اس کے خلاف جاۓ
پھر
روۓ
اور چلاۓ
سچی
بات تو یہی ہے
جو
وہ سمجھے وہی سہی ہے
جو
وہ سوچے وہی سہی ہے
جس
نے ہاں میں ہاں نہ ملائ
اس
کی پھر شامت آئ
اس
کو پھر میں کیا کہوں
اس
کے میں دل میں رہوں
میں
نے اک اناڑی دیکھی
اس
میں اک بیماری دیکھی
از
قلم ردا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یادوں
کی برات
کیسے
بتاؤں کتنا یاد آتے ہیں
تیرے
سنگ وہ گزرے ہوۓ
پل
کتنا
یاد آتے ہیں کتنا یاد آتے ہیں
نادانی
میں وقتکو سمجھ نہ سکی
وہ
گزرتا گیا میں بچھڑتی گئ
میں
الجھتی گئ آپ ٹوٹتی گئ
پھر
اس سیاہ دن سے ملاقات ہوئ
جو
تعلق تیرا میرا تھا اس کی مات ہوئ
آج
میں سوچو تو چھا جاتی ہیں عالم دہر میں خا موشی
کیا
بتاؤں کسی کو بتاؤں اے میری ہمنوا
کتنا
یاد آتے ہیں وہ گزرے ہوۓ
پل
دل
چاہتا ہے میرا لوٹ آپ بہار دیداں بن کر
میں
لپٹ جاؤں تم سے آخری امید بن کر
تڑپتی
روح کو قرار آۓ
میری زندگی میں بہار آۓ
حیف
نہ سوچو تم اتنا جو بچھڑ گۓ
وہ کب ملے
جو
سوچا تھا وہ سب ملا بس
زندگی
کو تم نہ ملے
از
قلم ردا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment