میں عشق اسی سے کرتا تھا
اک
لڑکی کو میں چاہتا تھا
وہ
بھی تو مجھ کو چاہتی تھی
سب
کی ہی لاڈلی تھی وہ
سب
کو وہ ہنسنا سکھاتی تھی
وہ
نازک سی معصوم سی تھی
وہ
کانچ کی گڑیا لگتی تھی
میں
ہنستا تھا وہ کھلتی تھی
وہ
پھول گلاب کا لگتی تھی
جب
آنگن میں وہ آتی تھی
خوشیوں
کی بہاریں لاتی تھی
نہ
قسمیں تھیں نہ وعدے تھے
نہ
منزل تھی نہ راستے تھے
میرے
سنگ وہ خواب سجاتی تھی
مقدر
پر یقین وہ رکھتی تھی
مجھے
ہر رنگ میں وہ بھاتی تھی
بارش
کے موسم میں
میرے
سنگ وہ گیت گاتی تھی
ہاں
یاد ہے مجھ کو وہ منظر
خزاں
کی رت جب چھائی تھی
وقت
نے کروٹ بدلی تھی تو
مقدر
نے چوٹ لگائی تھی
میرا
دل ٹوٹا ،خواب بکھر گئے
جب
روتی ہوئی وہ آئی تھی
والدین
مے مجھ کو پالا ہے
مجھ
اٹھ کر چلنا سکھایا
بدلے
میں اب میں نے ان کا مان رکھنا ہے
میں
کیسے باغی ہو جاؤں
میں
تم کو بھول جاتی ہوں
ساتھ
مل پھر ہم دونوں نے ان سپنوں کو جلا دیا
ان
رسموں اور رواجوں نے دل دونوں کا ہی توڑ دیا
کبھی
آنکھوں میں نمی بن کر
کبھی
ہونٹوں پر ہنسی بن کر
مجھے
یاد وہ اب بھی آتی ہے
میری
محبت کی اک حسیں غزل
میری
روح کی وہ شاعری ہے
میں
کیسے بتاؤں دنیا کو
میرے
یاد وہ اب بھی آتی ہے
اک
شام کو برسات کی
میں
بیٹھا اس کی یادوں میں
اچانک
پھر مجھ کو یوں لگا
بہاریں
پھر لوٹ آئی ہیں
سنگ
اپنے ہمسفر کے وہ
میرے
سامنے سے گزری تھی
میرے
دل صدا لگائی جب
اس
نے مڑ کر مجھ کو دیکھا
اس
کے ہونٹوں کی ہنسی
اس
بات کی گواہ تھی کہ
محبت
وہ مجھ سے نہ سہی
پر
یاد وہ آج بھی کرتی ہے
میری
آنکھوں میں نمی آئی
میرے
ہونٹوں پر ہنسی آئی
وہ
لمحہ جیسے رک گیا
برسات
بھی جیسے تھم گئی
اس
اک لمحے کو میں جی لیتا
کاش
کہ ایسا ہو جاتا
وقت
کا تھا مجھ سے سدا کا بیر
وہ
پیٹھ دکھا کا چل نکلا
وہ
اس کو بھی سنگ لے گیا
میں
کیسے بتاؤں دنیا کو
میرا
سب کچھ ہی وہ لے گیا
اس
کی یادوں کو قلم سے میں
کاغذ
پر اب لکھتا ہوں
دنیا
یہ جب بھی پڑھتی ہے
مجھے
شاعر کمال کہتی ہے
میں
کیسے بتاؤں دنیا کو
یہ
یادیں ہیں اس،لڑکی کی
جس
لڑکی پر میں مرتا تھا
میری
چاہت تھی ، محبت تھی
میرا
پیار تھی میرا عشق تھی وہ
وہ
لڑکی جس پر مرتا تھا
میں
عشق اسی سے کرتا تھا
میں
عشق اسی سے کرتا تھا
*************
No comments:
Post a Comment