بجز اپنے لفظوں کے خزانے ______ کھولتا کب تھا
وہ آنکھیں سوچتی کب تھیں وہ چہرہ بولتا کب تھا
اُسے خود کو گنوانے کا ہنر بخشا کس رُت نے
وہ اپنا عکس گہرے پانیوں میں گھولتا کب تھا
میں ڈرتا ہوں یہ فصلِ ہجر کی سازش نہ ہو ورنہ
وہ اپنے قیمتی آنسو ہوا میں رولتا کب تھا
یقیناً پھوٹتی ہیں مستیاں اس کی اداؤں سے
وگرنہ روبرو اُس کے زمانہ ڈولتا کب تھا
غلط فہمی کے سائے درمیاں بچھتے گئے محسن
میں اُس کے سامنے ہر بات پہلے تولتا کب تھا
No comments:
Post a Comment