تجھے یاد ہے اسی ریت پر
میں ہوں جس مکان کی چھت تلے
مرا گھر نہیں
ترا نام درج ہے جس جگہ
ترا در نہیں
تجھے یاد ہے کسی شام ہم نے بنایا تھا
کہیں ایک چھوٹا سا ریت گھر
اُسی ریت سے اُسی ریت پر
(اُسی ریت پر
جو تھی راہ میں کسی موج کے
کبھی اپنے ہونے کے دھیان میں
کبھی معجزوں کے گمان میں)
ہمیں علم تھا
ہمیں علم تھا کہ وہ ریت گھر
جو تھے منتظر کسی موج کے
انہیں ٹوٹ جانے سے روکنے کا خیال امرِ محال ہے
اسی موج و ریگ کے کھیل سے ہی بحال ہے
وہ تلازمہ
وہی رابطہ، جسے ماننے کے فشار میں
رہِ آگہی کے سراب بھی
سبھی خواب بھی
اسی ایک لمحۂ مختصر کے حصار میں ہے گھرا ہوا
خطِ ریگ بھی کفِ آب بھی
پہ یہ داستاں
تو تھی ترجماں کسی کھیل کی
اُسی کھیل کی
جسے کھیلتے ہمیں آلیاکسی رات نے
اُسی رات نے
جسے اپنے خوں سے جواں کیا
مرے شوق نے ترے ساتھ نے
کسی ان چھوئے سے خیال نے
کسی دور ہوتی سی بات نے
تجھے یاد ہے مجھے یاد ہے
وہ جو بات کی بڑی دیر تک
مرے ہاتھ سے ترے ہاتھ نے
کہاں تھا گُماں، کسے تھی خبر
جو کہا تھا شوق کی لہر نے
جو لکھا ریت کی لوح پر
اُسی ایک شام کا کھیل تھا
اُسی ایک پل کا جمال تھا
اُسی کھیل میں
اُسی شام کو
وہ جو ریت گھر سے بکھر گئے
وہ جو ایک پل میں اُجڑ گئے
مرے خواب تھے
ترے خواب تھے
No comments:
Post a Comment