برسات
برسات
کی گہری راتوں میں۔
مٹی
کی دھیمی دھیمی خوشبو میں۔
رقص
کر تے آنچل میں۔
ہوا
کے دوش میں،اڑتی ذلفوں میں۔
ہاتھ
پھلا کے چہرے کی مسکراہٹ میں۔
جب
ننئ ننئ بوندیں میرے وجود سے ٹکراتی ہیں۔
اپنا
آپ بھول کے میں۔
دل
کے بچپن پر لبیک کہتی ہوں۔
رات
کی تاریکی میں۔
آنکھیں
بند کر کے ہوا کو محسوس کرتی ہوں۔
مٹی
کی مہک سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔
بند
آنکھوں سے آسمان دیکھتی ہوں۔
پھر
اپنے آنچل کو ہوا میں لہراتی ہوں۔
بوندیں
آہستہ سے کوئی گیت سناتی ہیں۔
جب
میں آنکھیں کھولتی ہوں۔
تو
پلکوں سے پانی ٹپک جاتا ہے۔
بوندیں
ہوا کے سنگ رقص کرتی ہیں۔
میں
بس چپ چاپ۔
رات
کی بارش کو۔۔۔۔۔
مٹی
کی مہک کو۔۔۔۔۔۔
بوندوں
کے گیت کو۔۔۔
ہوا
میں رقص کرتی ذلفوں کو۔۔۔
اُڑتے
ہوا میں آنچل کو۔۔۔۔۔۔
بند
آنکھوں سے دل میں اتارتی ہوں۔
خدا
کی رحمت پر پیار آتا ہے۔
بےحساب
آتا ہے۔۔۔۔
رات
کی تاریکی میں۔
بارش
کے پردے مجھے خود میں بھینج لیتے ہیں۔
یوں
لگتا ہے کہ میرا پورا وجود ۔
ان
ہواؤں کے آغوش میں ہے۔
جب
لوگ خوابِ خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔
تو
میں یہ حسین پل جیتی ہوں۔
میں
بلکل ایک عام سی لڑکی ہوں۔
تصور
کو حقیقت میں جیتی ہوں۔
تحریر
عائشہ نعیم
***************
No comments:
Post a Comment